سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجلی مہنگی کرنے سے ملک کے اندر 165سے زیادہ ٹیکسٹائل ملیں بند ہو چکی ہیں ، جبکہ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہہماری پی ٹی آئی حکومت میں چین کے ساتھ تجارتی فرق 20فیصد تھا جسیبرابر کرنے کیلئے دس سالہ منصوبہ ترتیب دیا تھا،جس میں پہلے پانچ سال میں 10فیصد فرق کو کم کرنا تھا،جبکہ اگلے پانچ سالوں میں باقی 10فیصد فرق مٹانا تھا، اس منصوبے کی روشنی میں پاکستان کے اندر 10 لاکھ ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہونا تھے،چین کو قائل کیا تھا کہ وہ اپنی بڑی انڈسٹریز پاکستان میں لائے جس سے نہ صرف پاکستان میں بے روزگاری کا خاتمہ یقینی بنا بلکہ پاکستان میں تجارتی خسارے کو بھی کم کیا جا سکتا تھا،ای کامرس کے تحت کاروبار کرنے والوں نے 3 سے 4 ارب ڈالر باہر رکھے ہیں۔موجودہ حکومت نے ان کو درپیش مسائل حل نہیں کئے، موجودہ حکومت نے ای کامرس شعبے کی بہتری کیلئے ہمارے اٹھائے گئے کو واپس لیا، میرے دور میں فری لانسرز کی مشکلات حل کی گئیں،وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2021-22میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا دالوں کا ایکسپورٹر بنا،حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے پاکستان کو کاٹن درآمد کرنا پڑے گی۔ چیئرمین کمیٹی نے اجلاس کو بتایا کہ بجلی مہنگی کرنے سے ملک کے اندر 165سے زیادہ ٹیکسٹائل ملیں بند ہو چکی ہیں۔پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کے علاوہ سینیٹر شوکت ترین، سینیٹر عبدالقادر،سینیٹر دینیش سمیت دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں سینیٹر دینیش نے انکشاف کیا کہ گوادر میں مچھلیوں کی پراسیسنگ نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی ممالک مچھلیاں اسمگل کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے پاکستان کی فش پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ گوادر میں 1200ناٹیکل ایریا میں غیر ملکی ٹرالر آ کر پاکستانی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں، پاکستانی مچھیرے جو مچھلی ایک ماہ میں پکڑتے ہیں وہی غیر ملکی ٹرالر ایک دن میں پکڑ لیتے ہیں اس معاملے میں بحری کوسٹ گارڈز اور سمندری حدود پر متعین عملہ بھاری رشوت لے کر انہیں ان کام کی اجازت دیتا ہے جبکہ دوسری جانب پراسیسنگ پلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی مچھیرے بہتر قیمت ملنے پر اپنی پکڑی ہوئی مچھلیاں انہی ٹرالر پر فروخت کر دیتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزارت کامرس کے حکام نے بتایا کہ یورپی یونین کے انسپکٹرز کو کراچی میں فش پراسیسنگ پلانٹس کا دورہ کرایا تھا گندگی اور غیر معیاری بوسیدہ مشینری کی وجہ سے برآمد روکی گئی ہے، اس معاملے کو وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ سینیٹر شوکت ترین نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان میں عمران خان حکومت کے دور میں لگائے گئے زیتون کی پیداوار کی برآمد کی جا رہی ہے یا نہیں جس پر حکام نے بتایا کہ کے پی اور بلوچستان میں زیتون کی کامیاب کاشت ہوئی ہے، زیتون کا پودا پانچ یا چھ سال بعد پیداوار شروع کر دیتا ہے اس سے یا تو تیل نکالا جا سکتا ہے یا پھر زیتون کے پھلوں سے مختلف اشیاء بنائی جا سکتی ہیں ابھی اس چیز کی رپورٹ تیار کی جا رہی ہے ۔ شوکت ترین نے کہا کہ آئندہ پانچ سالوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات کو 50 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں ،آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکمت عملی طے کرنا ہو گی ، پاکستان 27 اقتصادی زون بنا چکا ،پانچ میں کام شروع ہو چکا۔ سینیٹر شوکت ترین نے کہا کہ ای کامرس کے تحت کاروبار کرنے والوں نے 3 سے 4 ارب ڈالر باہر رکھے ہیں۔موجودہ حکومت نے ان کو درپیش مسائل حل نہیں کئے، موجودہ حکومت نے ای کامرس شعبے کی بہتری کیلئے ہمارے اٹھائے گئے کو واپس لیا، میرے دور میں فری لانسرز کی مشکلات حل کی گئیں، ابھی پھر ان پر ٹیکس لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے 3 سے 4 ارب ڈالر باہر پڑا ہے، فری لانسرز کے مسائل حل نہیں ہوئے اور رقم بیرون ملک پڑی ہے، اس وقت ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہے اور ہمارے ڈالرز باہر پڑے ہیں،اس پر ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ وزارت تجارت حکام نے بتایا کہ 90 فیصد ای کامرس اندورن ملک ہورہی ہے جس میں کیش آن ڈیلیوری ہے،پاکستان ای کامرس کے شعبے میں دنیا میں 37 ویں نمبر پر ہے،تخمینہ کے مطابق پاکستان کی ای کامرس مارکیٹ کا سائز 2021 میں 5.9 ارب ڈالر ہے،پاکستان میں ای کامرس میں 4 ہزار 445 مرچنٹ رجسٹرڈ ہیں ،پاکستان میں زراعت کے شعبے بھی ای کامرس شروع ہو چکا ۔سینیٹر شوکت ترین نے کہا کہ زرعی شعبے کی ای کامرس کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ وزارت کامرس کے حکام بتائیں کہ پاکستان ادویات برآمد کر کے کروڑوں ڈالر کما سکتا ہے معاملہ کہاں اٹکا ہوا ہے جس پر وزارت کے حکام نے بتایا کہ معاملہ ڈریپ کی فائلوں میں دبا ہوا ہے، ڈریپ کے ساتھ اس معاملے کو کئی بار اٹھایا گیا لیکن ابھی تک اس پر پیش رفت نہیں ہوئی،جس پر چیئرمین کمیٹی نے 15 دن کے اندر اندر رپورٹ طلب کرلی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں کمیٹی ارکان نے ایکسپورٹ کے شعبے کو دی گئی سبسڈی کے خاتمے پر تشویش کا اظہارکیا ۔سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ ہم ایک روٹی کھائیں لیکن ہماری برآمدات نہیں رکنی چاہیے،برآمدی شعبے کو زیادہ سہولیات دینی چاہیے برآمدات سے زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے، ٹیکسٹائل کے 1600 یونٹس بند ہوگئے ہیں۔سپیشل سیکرٹری وزرات تجارت احمد مجتبیٰ میمن نے کہا کہ ٹیکسٹائل کے 1600 یونٹس بند ہونے کا ڈیٹا نہیں ہے، اس وقت ہمیں کپاس کا بڑا مسئلہ ہے ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو مشکلات ہیں، اسٹیٹ بینک کے ساتھ ٹیکسٹائل کے شعبے کو درپیش مشکلات کے حل کی کوشش کی جارہی ہے،فنڈز کی کمی کے باعث ایکسپورٹ کے شعبے کی بجلی کی سبسڈی ختم کی ہے، فنڈز کی دستیابی پر یہ سبسڈی دوبارہ دے دی جائے گی۔وزارت تجارت حکام نے بتایا کہ جنوری سے اپریل تک ای کامرس کی ذریعے 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر حاصل ہوئے
بجلی مہنگی کرنے سے ملک کے اندر 165سے زیادہ ٹیکسٹائل ملیں بند ہوگئیں

