ہمارے ملک کا حال ایساہی ہے کہ ایک آتاہے ،اپنا وقت گزارتاہے اور چلاجاتاہے اوراس کی جگہ نیالے لیتاہے اور ایسا قیام پاکستان سے لےکر اب تک چلا آرہاہے ۔رعایا حکمرانوں پر حکمران دیکھ دیکھ کر اور ان کی آنیاں اور جانیاں ملاحظہ فرماکر تھک چکی ہے مگر یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا ہے ۔اوپر سے ستم ظریفی دیکھیئے کہ جوبھی اس ملک میں مسنداقتدار پر آتاہے اس کی تعمیر و ترقی ،خوشحالی و بہتری کا اراگ الاپتاہے ۔ میں یہ کردوں گا ۔ میں وہ کردوں گاجیسی باتیں کرتاہے۔میں ہی ہوں اصلی قوم کا مسیحا کی مسلسل گردان کرتا ہے ۔ قوم کا خادم ،نوکر اور خدمت گزار بتاتا ہے ۔ عوام کےلئے کچھ بھی نہیں کرتاہے محض اپنے آپ کو ہی سنوارتااور بناتا ہے ۔ عوام کی ساری امیدوں، تمناﺅں اور چاہتوں کا سارا بھرم توڑے ،اعتماد کا کیاکرم کیے مختلف دلیلیں اور منطق سناتا صرف اپنی ہی سناتاہے۔ملک کے مسائل یہ ہیں۔حالات ایسے ہیں ۔ مشکلات بہت بڑھی ہیں۔گھبرانا تو بالکل ہی نہیں ہے ۔ قوموں کی زندگی میں اونچ نیچ اور اچھے برے حالات آتے ہی رہتے ہیں ۔ان سے احسن طریقے سے نمٹنے میں ہی بہادری و جوانمردی ہے۔ملک و قوم کی فلاح و بہبود کےلئے چنے ہوئے الفاظ و،بہترین ودلفریب وعدوں پر مشتمل ،دل کو لبھادینے والی تقریریں فرماتا ہے ۔ملک کو دبئی اورپیرس بنادینے کی باتیں کرتاہے۔اسے ریاست مدینہ سے تشبیہہ دیتا ہے۔اس کی اٹھان کے لیے چین ،جاپان و دیگر ملکوں کی مثالیں دیتاہے۔قوم کو ہر حوالے سے سمجھاتاہے۔ اپنی وفاداری اور حب الوطنی کے ترانے گاتاہے۔اپنی وفاشعاری اور الفت ومحبت کی قسمیں کھاتاہے۔ملک کے گھمبیر ، پریشان کن حالات بتاکر ،قوم کو تشویش میں مبتلاکیے ،مسلسل ڈرائے ،اپنے اقتدار کے دن بڑھاتا ہے ۔ملک کے حالات بہت جلد سدھر جائیں گے،دودھ کی نہریں بہیں گی ،کاروبار اور بیرونی انویسٹمنٹ بڑھیں گی ، نوکریاں آئیں گی ،اندرون وبیرون اپنے کیے کاموںاور بچھائے جالوں کی بابت بات کرتا ہے ۔اپنے ہر کارنامے پر نازاں و فرحاں نظر آتاہے۔ اپنے پانچ سالہ دوراقتدار میں بہت کچھ کرتا ہے ۔اگرنہیں کرتاتو قوم کےلئے کچھ نہیں کرتاہے ۔قوم کی بہتری و فلاح کےلئے کوئی قدم نہیں اٹھاتا ہے ۔قوم کے بچوں کو ایجوکیشن کی طرف نہیں لاتاہے۔سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کے برابرمواقع فراہم نہیں کرتا ہے ۔ قوم کی حقیقی اٹھان اور ان کی برسوں کی بھوک وافلاس کو مٹانے کی طرف نہیں آتا ہے ۔ قوم کو مہنگائی کے ظالم جن کے عفریت سے نجات نہیں دلاتا ہے ۔ اس قوم کو جونک کی طرح چمٹے مافیا سے بچانے کی طرف نہیں آتا ہے ۔ ملک وقوم کو ترقی و خوشحالی کی ڈگر پر چلانے نہیں آتاہے۔اگر آتاہے تو صرف اشرافیہ کے حقوق و فرائض کے تحفظ کےلئے آتاہے۔اُن کو ہر سہولتیں بہم پہنچانے اور ہر تکالیف ہٹانے آتا ہے ۔ ارکان اسمبلی کی موجیں اور ان کی جیبیں بھرنے آتا ہے ۔ انڈسٹریل اسٹیٹ کی غریب کاخو ن چوس ہستیوں اورمال وزر کے پجاری بزنس مین مالکان کو بزنس میں مزید اور مراعات دے کر غریب ماربنانے کےلئے آتاہے۔بہتر اور اچھی تنخواہیں دینے اور اس کامسلسل ڈھنڈورا پیٹ کر ،فیکٹری والوں کی طرف سے کم تنخواہ معاملے پرپھر مسلسل آنکھیں چرانے اورمکمل موند لینے کےلئے آتا ہے ۔ فیکٹریوں میں کسی بھی منفی ،مزدور دشمن فیصلے یا غلط پالیسی کا باہر علم نہ ہو ،موبائل اور کیمرا لانے پر پابندی کرواتا ہے ۔ مختلف جگہوں ،مقامات پر کیمرا اور موبائل ممنوع یا استعمال پر پابندی کاآرڈر دے کرکام چور ،ہڈحرام ،عوامی دکھ درد سے یکسر بے نیاز ظالم و جابرقسم کی اعلیٰ ہستیوں کو اپنی کمال مہارت اور بہترین فنکاری سے عوامی غیض و غضب سے بچانے کےلئے آتا ہے ۔ غریب آدمی انڈہ و مرغی چور کو جیل اور امیر افراد، ملک وقوم کے اربوں ڈکار جانےوالے ژدھاﺅںکو پتلی گلی سے گزار کر،ڈیل اور ڈھیل دے کر پلی بارگین اوراین آراوسے نوازنے کےلئے آتا ہے ۔ دل چاہے تو معافی کل کا بھی چکر چلاتا ہے ۔ احتساب ایک دھوکا اور سراب ،اکثر احتساب کا نعرہ لگاکر احتساب سے بھی کھلواڑ فرماتا ہے ۔ منظور نظر کو بچاتا اور نظر سے دور کو پھنساتا ہے ۔ مختلف مصلحتوں ، مجبوریوںکی چادر اوڑھے ، اس کا بتائے ، جانے انجانے میں قوم سے ہی گیم کرجاتاہے ۔ ملک وقوم کے لٹیروں کو ملکی وسائل لوٹنے اور اس کی مسلسل بندربانٹ پر بھی عوام میں معزز بنائے ،تمام اقدامات بھی اٹھائے ،ستم ماری ،مہنگائی و بے روزگاری کی ستائی قوم پرہی ہر طرح کا ٹوکا اور چھری چلاتا ہے ۔بہت ہی اچھاحکمران ہے اکثرایسے ہی فرماتاہے اور پھر وقت اور حالات موافق نہ سمجھتے حکومت و عوام کو اپنے مخالف پاکر،اپنی بادشاہت کا تختہ ڈاواں ڈول یا الٹتے دیکھ کر ، اپنا وقت پورا ہوتے ملاحظہ فرماکر،عوام کو بے انتہاءمایوسیاں ،تلخ یادیںاور کھجل خواریاں دیکر ، اب جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے ، ملک وقوم پر بہت ہی زیادہ اور وسیع احسانات و اکرام کا بوجھ لادے اپنے گھر کو چلاجاتاہے ۔اس ملک کی یہ ایک بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں اس طرح کے حکمرانوں میں سے ایک چلا جاتاہے تو ویساہی دوسرا آجاتاہے۔ایسے میں بدلتاتو بہت کچھ ہے اگر نہیں بدلتاہے تو رعایا کا نصیب اور مقدر نہیں بدلتاہے۔