Site icon Daily Pakistan

بنگلہ دیشی انقلاب بس تھوڑا انتظار

جنوری 2009سے جبری ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتدار پر براجمان حسینہ واجد کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ان کے کرسی اقتدار کی چولیں ہل چکی ہیں اور کچھ ہی دیر میں الٹنے کو ہے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے استعفیٰ سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جبری ہتھکنڈے حکومت کو طول تو دے سکتے ہیں مگر استحکام نہیں شیخ حسینہ واجد کا دور سیاسی طور پر حبس زدہ تھا مگر انہوں نے اپنے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں جو کردار ادا کیا اس سے انکار ممکن نہیں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے استعفیٰ سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جبری ہتھکنڈے حکومت کو طول تو دے سکتے ہیں مگر استحکام نہیں شیخ حسینہ واجد کا دور سیاسی طور پر حبس زدہ تھا مگر انہوں نے اپنے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں جو کردار ادا کیا اس سے انکار ممکن نہیں2009 کے بعد سے بنگلہ دیش کی شرح نمو میں سالانہ اوسطا چھ فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا معاشی ترقی کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں غربت میں کمی آئی اور اس ملک نے فی کس آمدنی کے لحاظ سے 2021میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا حسینہ واجد کے طویل اقتدار میں آمریت کے آہنی پردوں کے پیچھے کرپشن کی غضب کہانیاں بھی کم نہیں جس میں وزیر اعظم کے قریبی لوگ حکومت میں شامل افراد پیش پیش رہے حسینہ واجد کی سیاست میں اگر عوام کے جمہوری حقوق کا احساس پایا جاتا تو انہیں یوں بے آبرو ہوکر کوچہ اقتدار سے نہ نکلنا پڑتا ایک سیاسی حکومت کے غیرجمہوری اور آمرانہ رویوں نے بالآخر اسے ایک ناقابل رشک انجام سے دوچار کردیا شیخ حسینہ واجد کا عبرتناک سیاسی انجام ان تمام مطلق العنان اور آمرانہ طرز فکر رکھنے والے حکمرانوں کےلئے ایک بڑی مثال ہے کہ اگر عوام اپنے حقوق کےلئے اٹھ کھڑے ہوں تو مضبوط سے مضبوط حکومت بھی اس سیلاب کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی پانچ اگست تک خود کو مضبوط اور ایک لحاظ سے ناقابل تسخیر سمجھنے والی بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد آج سابق ہوکر بیرون ملک بیٹھی ہیں اور ان کے مستقبل کا کچھ پتا نہیں کہ کیا بنے گا کہا جارہا ہے کہ وہ برطانیہ یا پھر کسی خلیجی ملک جلا وطن ہوجائیں گی اور شاید انہیں اپنی باقی زندگی اس جلا وطنی ہی میں گزارنا پڑے بنگلہ دیش میں 1971کے جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30فیصد کوٹہ دیئے جانے کیخلاف کئی ہفتوں کے حکومت مخالف مظاہروں میں 360افراد کی ہلاکت اور ہزاروں افراد کے زخمی ہونے کے بعد طلبہ کی جانب سے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نا فرمانی کی کال کے پہلے ہی روز وزیر اعظم حسینہ واجد بنگلہ دیشی آرمی چیف کی 45منٹ کے ڈیڈ لائن کے بعد استعفیٰ دے کر بھارت فرار ہوگئی تھیں شیخ حسینہ واجد نے محفوظ مقام پر منتقلی سے قبل تقریر ریکارڈ کرانے کی کوشش کی مگر انہیں اس کا موقع نہیں دیا گیا یوں بنگلہ دیش پر طویل عرصہ تک حکمرانی کرنےوالی شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج اچانک غروب ہوگیا شیخ حسینہ واجد کا 15 سالہ دور اقتدار جہاں بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا ایک حوالہ بنا وہیں ان پر سیاسی حریفوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دبانے کے الزامات بھی لگتے رہے۔76سالہ مطلق العنان حسینہ واجد رواں برس جنوری میں پانچویں مرتبہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم بنی تھیں لیکن اپوزیشن نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا بنگلہ دیش کو آزادی دلوانے والے انقلابی کردار شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے ایک ایسے ملک کی معاشی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا جسے ایک مرتبہ ہنری کسنجر نے ناقابل تلافی(باکسٹ کیس)قرار دیا تھا حسینہ واجد نے 1990 میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کو اقتدار سے ہٹانے میں مدد کےلئے خالدہ ضیا کی بی این پی کا ساتھ دیا لیکن وہ ان کے ساتھ زیادہ عرصہ تک چل نہ سکیں بعد ازاں دونوں کی مخاصمت نے بنگلہ دیش کی سیاست پر غلبہ حاصل کر لیا حسینہ واجد کے بیٹے صبحیب واجد جوئی کابی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ والدہ نے بنگلہ دیش صرف اور صرف اہل خانہ کی ضد پر چھوڑا کیونکہ ہمیں نظر آرہا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے والدہ اب کبھی سیاست میں واپس نہیں آئیں گی پاکستان میں بنگلہ دیش میں برپا ہونےوالے عوامی انقلاب پر قوم اور سیاستدان شاداں ہیں اس انقلاب کی شان میں قصیدہ خوانی کی جارہی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسا یہ انقلاب بنگلہ دیش میں نہیں بلکہ پاکستان میں برپا ہوا ہے اور اپوزیشن میں بیٹھے تمام سیاستدان اور ان کے کارکن اس انقلاب کے سرخیل ہیں بلا شبہ ہم انتہائی عجلت پسند قوم ہیں صبر اور تحمل کا مادہ نہ ہونے کے برابر ہے حالات واقعات کا تجزیہ کئے بغیر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور جذبات کی دھند جب چھٹتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے معاملات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے ایران میں انقلاب برپا ہوا تو سب سے زیادہ خوشیاں ہم نے منائیں عرب ممالک میں انقلاب کی لہر اٹھی تو دانش وروں اور قوم نے اسے عرب بہار کا نام دیا لیکن بعد ازاں یہ حقیقت دیکھ کر چودہ طبق روشن ہوگئے ہم جسے بہار کی رت سمجھ کر خوشیاں منا رہے تھے وہ خزاں رسیدہ موسموں کا ہی ایک روپ تھا مصر میں حسنی مبارک کی رخصتی کو دیوار برلن گرنے سے تشبیہ دی گئی لیکن وہاں اب ایسا جمود طاری ہے کہ حالات پہلے سے بھی کہیں زیادہ بد تر ہوگئے لیبیا میں آج بھی افراتفری کا عالم ہے بدامنی اور لاقانونیت کا راج ہےطالبان نے کابل پر فتح کیا تو سب سے زیادہ جشن پاکستانیوں نے منایا۔ آج رو رہے ہیں دھاڑیں مار رہے ہیں دوستی کے واسطے دے رہے ہیں افسوس ہمارا رونا دھونا کسی کام نہیں آرہا اب بنگلہ دیش میں مشتعل مظاہرین کے ہجوم نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کواقتدار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کیا ہے تو اسے ہمارے ارسطو جمہوریت کی عظیم الشان کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں وطن عزیز کے حالات کا بنگلہ دیش سے موازانہ کیا جارہا ہے حکمرانوں کو ڈرایا ودھمکایا جارہا ہے بنگلہ دیش کے طفل مکتب انقلاب پر بغلیں بجانے والے ماضی کے اس جیسے انقلابوں سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں جو آج عذاب کی صورت میں مسلم دنیا میں حشر اٹھا رہے ہیں1977میں ایسا ہی ایک انقلاب پاکستان میں بھی برپا ہوا تھا تب بھی وہی ہوا جو بنگلہ دیش میں اب ہوا ہے ہم راہ سے ایسے ہٹے کہ ابھی تک نشان منزل کا پتا نہیں مل سکا اور ہم ہواں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔

Exit mobile version