Site icon Daily Pakistan

بھارتی مسلمان میتیں گھروں میں دفن کرنے پر مجبور

بی جے پی کے زیر اقتدار بھارتی ریاست ہریانہ میں مسلمان قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے میتیں اپنے گھروں میں دفن کرنے پر مجبور ہیں۔ ضلع چرخی دادری کے علاقے گڈانہ میں 50سے زائد مسلمان خاندانوں کو قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ صورتحال تیزی سے سنگین ہوتی جا رہی ہے اور علاقے کے لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی حل نہ نکالا گیا تو وہ اپنی میتوں کے ساتھ حکام کے دروازوں پر احتجاج کریں گے۔اتر پردیش کے آگرہ واقع اچھنیرا بلاک کے گاو¿ں چاہ پوکھر میں قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اپنے لوگوں کو گھروں میں ہی دفن کرنے کو مجبو رہیں۔قبرستان کے لیے جگہ نہیں ملنے کی وجہ سے ان کو اپنے ہی گھر میں قبر بنانے کو مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ اس گاو¿ں کے لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے اور و ہ بے حد غریب ہیں۔ زیادہ تر مسلمان مرد ٹھیکے پر مزدوری کرتے ہیں۔اتر پردیش کے آگرہ واقع اچھنیرا بلاک کے گاو¿ں چاہ پوکھر میں مٹھی بھر مکانوں میں رہنے والے ان مسلمانوں کے گھر قبرستان بن چکے ہیں۔گاو¿ں میں قبرستان نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے لوگوں کو گھروں میں ہی دفن کرنے کو مجبو ر ہیں۔ عورتیں جہاں کھانا بنارہی تھیں ،اس کے پاس ہی ان کے بچوں کی قبریں ہیں۔ گھر کے پیچھے والے حصے میں جہاں بزرگ آرام کر رہے تھے وہاں بھی قبریں ہی قبریں ہیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سالوں سے ان کے قبرستان کے مطالبے کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔خاتون اخباری رپورٹر سے بات کرتے ہوئے سلیم شاہ نے کہا کہ ،آپ میری دادی کی قبر پر بیٹھی ہیں۔ ان کو یہیں دفن کیا گیا تھا۔فیکٹری میں کام کرنے والے منیم خان نے اخبار کو بتایا کہ، ہم اپنے آباو اجداد کے لیے کچھ زمین ہی تو مانگ رہے ہیں۔گاو¿ں کے پاس ہی ہندو کمیونٹی کے لیے شمشان گھاٹ ہے لیکن ہم اپنی میت کے ساتھ رہنے کو مجبو رہیں۔اسی گاو¿ں کی رہنے والی رنکی بیگم نے کہا کہ ، انہوں نے اپنے گھر کے پیچھے ہی فیملی کے 5 لوگوں کو دفن کیا ہے۔ اس میں ان کا 10 مہینے کا ایک بیٹا بھی شامل ہے،جس کی موت وقت پر علاج نہیں کرا پانے کی وجہ سے ہوگئی تھی۔وہیں گڈی کا کہنا ہے کہ، ہم جیسے غریب لوگ عزت سے مر بھی نہیں پاتے۔ گھر میں جگہ کی کمی وجہ سے ہم قبر پر ہی بیٹھنے اور چلنے کو مجبور ہیں۔ یہ بہت شرمناک صورت حال ہے۔ کچھ دن پہلے گاو¿ں کے لوگوں کو قبرستان کےلئے زمین مختص کی گئی تھی لیکن وہ تالاب کے بیچ میں پڑ گئی۔ بار بار شکایت کرنے کے باوجود بھی اس تعلق سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔اس بات کو لے کر گاو¿ں کے لوگوں نے دو سال پہلے اس کی مخالفت کی تھی۔ مقامی باشندہ منگل خان کی موت کے بعد گاو¿ں کے لوگ قبرستان کے لیے زمین ملنے پر ہی ان کو دفن کرنے کے لیے دباو¿ بنا رہے تھے۔لیکن انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد ان کو تالاب کے پاس دفن کیا گیا تھا۔ گاو¿ں کے پردھان سندر کمار نے بتایا کہ میں نے کئی بار اس بارے میں افسروں سے بات کی اور مسلمانوں کے قبرستان کے لیے جگہ کے بارے میں پوچھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔وہیں ضلع مجسٹریٹ روی کمار این جی نے بتایا کہ ان کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔میں اس کے لیے افسروں کی ایک ٹیم کو گاو¿ں بھیجوں گا اور قبرستان کےلئے ضروری زمین کی تفصیلات حاصل کروں گا۔واضح ہو کہ انتظامیہ سے بار بار مطالبے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب ان گاو¿ں والوں کے سامنے اپنے ہی گھر میں جگہ کا مسئلہ کھڑا ہوگیاہے۔ گھر میں تازہ بنی قبروں کو اب پختہ نہیں کیا جاتا کیوں کہ اس سے زیادہ جگہ گھرتی ہے۔ قبروں کو نمایاں کرنے کےلئے ان پر چھوٹے بڑے پتھر رکھ دیے گئے ہیں۔پریشان گاو¿ں والوں نے نزدیک کے سانن گاو¿ں اچھنیرا قصبے کے قبرستانوں میں بھی اپنوں کو دفنانے کی کوشش کی لیکن وہاں کے لوگ بھی اپنی زمین دینے کو تیار نہیں ہیں۔ نظام خان جو ایک میکینک ہیں، نے بتایا کہ ان گاو¿ں کی چاہ پوکھر سے زیادہ آبادی ہے ان کے قبرستان پہلے سے بھرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران گجرات کے ضلع بیٹ دوارکا میں حکام نے تقریباً 335 عمارات کو منہدم کر دیا ہے، جن میں درگاہیں، گھر اور دکانیں شامل تھیں ۔گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے X پر انہدامی کارروائی کی ویڈیوز پوسٹ کیں، سنگھوی کے مطابق 53 کروڑ سے زائد روپے مالیتی 1 لاکھ 642 مربع میٹر اراضی پر انہدامی کارروائی کی گئی ہے، منہدم کی جانے والی عمارتوں میں 12 رہائشی، 9 تجارتی عمارتیں اور 12 مذہبی ڈھانچے شامل تھے۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ناجائز قبضے ختم کرانے کےلئے کی گئی، واگزار کرائی گئی اراضی پر جلد ہی عوام کےلئے نئی سہولتیں تعمیر کی جائیں گی، دوسری طرف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے کہا ہے کہ حکومت ناجائز قبضے ہٹانے کے نام پر مذہبی مقامات اور عمارتوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔انہدامی کارروائی میں حضرت پنج پیر رحمة اللہ علیہ کی درگاہ کو اتوار کے روز منہدم کر دیا گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور عمارتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں، مساجدپر بلڈوزر کے زریعے انہدامی کارروائی پر عدالت عظمیٰ کی پابندی کے باوجود بھارتی ریاست گجرات میں درگاہ حضرت پنج پیر اور 200 مکانات مسمار کر دیے گئے ہیں۔مسلمانوں کے محلوں اور عبادت گاہوں اورمذہبی مقامات کے خلاف انہدامی کارروائی جاری ہے۔عدالت عظمیٰ کی پابندی کے باوجودگجرات میں پچھلے کئی دنوں سے بلڈوزر کی کاروائی جاری ہے۔ دوارکا ضلع کے اوکھا میں درگاہ حضرت پنج پیر کو انتظامیہ نے مسمار کر دیا ہے۔بھارتی ریاست گجرات میں حکام کی جانب سے صدیوں سے قائم ایک مسجد، مسلمانوں کے قبرستان اور ایک مزار کو مسمار کردیا گیا، گجرات کی انتظامیہ نے نام نہاد انسداد تجاوزات مہم کا نام دیکر مسجد اور مزار کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگئی ، انتظامیہ نے مسجد کو مسمار کرنے کیلئے بھاری مشینری کا استعمال کیا جس میں 70ٹریکٹرز اور 10ڈمپر شامل تھے جبکہ اس دوران بھارتی پولیس کے 1400اہلکار بھی موجود تھے،واقعے کیخلاف مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ، تاہم انتظامیہ نے 70سے مظاہرین کو حراست میں لے لیا،اس سے قبل ایک اور واقعے میں بھارتی ریاست آسام میں 28مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ آسام کے ضلع بارپیٹا میں 28افراد (19مرد اور 9خواتین)کو ان کے گھروں اور خاندانوں سے کاٹ کر اچانک غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے ، بنگالی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مذکورہ افراد کو دستاویزات پر دستخط کرنے کے بہانے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر میں طلب کیا گیا تھا، لیکن انھیں بس میں بٹھا کر 50 کلومیٹر دور گول پاڑہ ضلع کے بدنام زمانہ مٹیا ٹرانزٹ کیمپ لے جایا گیا۔

Exit mobile version