اسلامی تعلیمات کی روشنی میںمیری ذاتی لائبریری میں کتاب ”اخوت اور رواداری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں“ اورزِندانِ ذات شعری مجموعہ کا اضافہ ہوا۔ ان کتب کی مصفہ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق(ام سارہ) نے تحفتاً بھیجی ہیں۔ حسب معمول آج ان کی کتاب ”اخوت اور رواداری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں“ پر تبصرہ کرنا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق صاحبہ(اُمّم ِسارہ) اسلامی اسکالر اور اسلامی علوم پر دسترس رکھتی ہیں۔ یہ کتاب اُس مقالے کا حصہ ہے جو کراچی یو نیورسٹی سے 2009ءمیں پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ صاحبہ کی نگرانی میں مکمل ہوئی۔آپ کو 2011ءمیں کراچی یونیورسٹی سے کتاب ”اخوت اور رواداری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں“ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔آپ نے اپنی یہ کتاب سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی، صدر مملکتِ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو کراچی گورنر ہاﺅس میں ایک تقریب میں پیش کی۔ آپ کی یہ کتاب کئی لائبریریوںکی زینت بھی بن چکی ہے۔آپ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں، آپ شاعرہ ہیں، آپ ذاکرہ ہیں، آپ ایک عظیم خطیبہ ہیں اورآپ سارہ فاﺅنڈیشن کی بانی ہیں۔آپ اقراءیونیورسٹی میں پڑھاتی رہی ہیں۔آپ سابق رکن قومی اسمبلی شہید علی رضا عابدی کی والدہ ہیں۔ آپ جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد ،شعبہ علم و ادب قلم کارواں کے روزانہ رات نو بجے، لہروں کے دوش پر، منعقد ہونےوالے مختلف موضوعات پروگراموں میں باقاعدگی سے شریک ہو کر ہماری رہنمائی فرماتی ہیں۔ سچی بات ہے کہ آپ خود اخوت اور رواداری کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں۔اسس کتاب پرجناب پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی،ڈاکٹر محمد امجد ثاقب، شائستہ زیدی اور ڈاکٹر عالیہ امام نے تعارفی کلمات لکھ کر اس کتاب کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب، اُخوت کا قرآنی مفہوم، دوسرا باب سیرت طیبہ اور اُخوت اور تیسرا باب اُخوت اور رواداری تاریخ اسلام کی روشنی میں ہیں۔ ہر باب کے بعد، آخر میں کتابیات کی لسٹ دی گئی ہے۔ پہلے باب کے شروع میں صفحہ نمبر 23میں لکھتی ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں ایمانیات اور عقائد کے بعد سب سے زیادہ اُخوت پر زور دیا گیاہے۔
قرآن جس معاشرے کو مثالی معاشرے کی حیثیت سے عوام کے سامنے رکھنا چاہتا ہے وہ لوگوں کاایسا گروہ ہے جس کے رویوں کی بنیاد اُخوت و محبت اور رواداری اور عفودرگزر پر ہے۔اس باب میں قرآن کی آیات میں جہاں جہاں انسانوں کے ایک دوسرے سے تعلوقات پر ہدایت ملتی ہیں جمع کی گئیں ۔ قرآنی تعلیمات کوسامنے رکھ کر پر عصر حاضر کے تناظر میںمفصل گفتگو کی گئی ہے جہاں جہاںضروری سمجھا گیا اسے شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبالؒ کے اشعار سے تقویت پہنچائی گئی ہے۔ مختلف تفاسیر جن میں مولاناامین احسن اصلاحیؒ کی تفسیر تدبر القرآن،سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن اور ناصر، مکارم الشیرازیؒ کی تفسیر نمونہ سے مدد لی گئی ہے۔ صفحہ 27 میںسورةالذاریات آیت۔56 کا حوالہ دیا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ” جن و انس کو عبادت کے لیے خلق کیا گیاہے“ تشریع میں لکھتی ہیں کہ مقصد ِ حیات ہونے کے حوالے سے عبادات کا مفہوم بہت اہمیت وسیع ہے۔ توحید اپنے مضمرات میں انسانوں کے لیے اُخوت و محبت کا جو پیغام رکھتی ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے۔پورے قرآن میں سے اُخوت رواداری کی آیات کو کتاب میں جمع کر کے اس کی عصری تقاضوں کے مطابق بہترین تشریع کی۔ پہلے باب کے آخر میں سورةالصف کی آیات نمبر 9 میں اللہ تعالی کا فرمان کہ”وہی توہے جس نے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام کے تمام ادیان پر ظاہر و غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو“ اس کی تشریع میں لکھتی ہیں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ دشمنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اللہ اس دین کو غالب کر کے رہے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور دنیا ایک دن امن کا گہوارہ ہوگی۔ یعنی اُخوت وہ خوبصور ت رشتہ ہے جو ایمان کی ڈور سے نہ صرف اس دنیا سے بندھا ہوا ہے بلک اس کا دوسرا حصہ جنت کی ابدی فضاﺅں میں جا کر پیوست ہو گیا ہے اوراپنی تمام تر شدت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اہل جنت کے لیے موجود رہے گی۔ دوسرے باب میں ”سیرتِ طیبہ اور اُخوت“ میں الطاف حسین حالی کی نظم مسدسِ حالی شامل کی۔القلم۔آیات 4 میں اللہ تعالی فرماتاہے کہ”اور بے شک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں“ اس کی تشریح میں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ اور آپ کے تربیت یافتہ افراد کے اقوال و کردار ہمارے لیے دنیا و آخرت میں نجات کاذریعہ ہیں۔انسانوں کے باہمی تعلقات میںآپ کے اہل بیت ؑ اور آپ کے تربیت یافتہ صحابہؓ کے افعال و کرادارمیں ظاہر ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو اُخوت کے جذبے کو سامنے رکھ فیصلے کرنے چاہییں اور معاشروں میں محبت، ایثار ا و قربانی کے ذریعے گرم جوشی اور یگانگت کی فضا قائم رکھنی چاہےے۔
تبصرہ کتا ب اخوت اور رواداری
