Site icon Daily Pakistan

تنخواہ میں پانچ سو فیصد اضافہ کیوں

دروازہ کھولا تو سامنے پسینے سے شرابور بابا کرمو کھڑے تھے۔ پوچھا کیا پیدل چل کر آئے ہو۔ کہا نہیں ٹیکسی میں آیا ہوں گلی کے کانر پر اتر گیا تھا وہاں سے پیدل آیا ہوں۔ پوچھا یہاں اس نے ڈراپ کیوں نہیں کیا جبکہ گلی سو فٹ کشادہ ہے۔ کہا پیدل جان بوجھ کر چلا ہوں کہ گرمی کا مزہ لے سکوں۔پوچھا پھر مزہ ایا۔ کہا اگر مزہ نہ ایا ہوتا تو میرے چہرے پہ بارہ بجے ہوتے اور میں غصے میں ہوتا۔ کہا ہم لوگ ناشکرے ہیں گرمی گرمی کا شور کر رہے ہیں۔ جبکہ اس گرمی سے وہ جراثیم قدرت مار رہی ہے جو سرکار نہیں مار سکتی یہ وہ جراثیمی ہیں جو ہماری صحت کیلیے خطرہ ہے اور ہمیں دکھائی نہیں دیتے اور ہم انہیں ختم نہیں کر سکتے ۔ اس لئے یہ گرمی ہماری صحت کے لیے اچھی ہے۔ امیر لوگ سٹیم لیتے ہیں تاکہ جسم کے بند خلیہ کھلیں۔ اس گرمی سے غریبوں کے بغیر پیسہ لگائے کے بند خلیہ کھل رہے ہیں۔ یاد رکھیں قدرت جو کر رہی ہوتی ہے اسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں قدرت ہم پہ مہربان ہے۔ کاش ہم اپنے کرتوتوں کو مزید ٹھیک کر لیں تو وہ ہم پہ مزید نوازشیں کے گا۔دنیا میں چار موسم ہیں جبکہ ہمارے ہاں ان کرتوتوں کے باوجود پانچ موسم ہیں۔پانچواں موسم ساون ہے۔یہ بہت کم ممالک میں ملتا ہے۔پھر بھی ہم گلے شکوے ہی کرتے رہتے ہیں۔بابا کرمو نے کہا جس ٹیکسی میں ایا ہوں اسے ایک نوجوان چلا رہا تھا۔ اس سے بجٹ کی بات کی تو کہا یہ بجٹ اپر کلاس کے لوگوں کے لیے ہے۔ لوہر کلاس اور بغیر کلاس والے تو ہر وقت روٹی کی بات کرتے ہیں ۔ کہا روٹی وہ واحد چیز ہے جس کی ضرورت اپر کلاس میڈل کلاس لوہر کلاس اور بغیر کلاس والوں کو پڑتی ہے۔ان کے نزدیک کاموں میں سب سے اہم کام روٹی ہے۔کسی سے پوچھو کدھر جارہے ہو کہے گا روٹی کھانے۔پوچھو کہاں سے آئے ہو روٹی کھا کے ایا ہوں یہاں کدھر بیٹھے ہو روٹی کے انتظار میں۔ بندے کی موت کیسے ہوء روٹی کھاء لسی پی بس روٹی کھاتے کھاتیفوت ہو گیا۔جنازہ کب ہو گا روٹی کے فوری بعد۔ نماز جنازہ کے اعلان میں پھر روٹی کا اعلان ہوتا ہے کہ روٹی کھائے بغیر نہیں جانا۔ پھر اعلان کرتے ہیں کل قل ہے روٹی پر ضرور آنا۔ صبح روٹی دوپہر روٹی اور شام روٹی۔ جتنی پابندی سے یہ قوم روٹی کھاتی ہے اتنی پابندی سے یہ کام نہیں کرتے۔ بابا کرمو سے پوچھا بجٹ میں کن کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے کہا جن کی تنخواہ میں اضافہ ہونا تھا ان کی تنخواہوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس کا اطلاق اس سال جنوری سے ہو گا۔ یعنی انہیں چھ ماہ کی تنخواہیں بھی ملیں گی۔ کہا میں سمجھا نہیں۔ اس لے نہیں سمجھے کہ اپ روٹی کے چکر میں رہتے ہو ورنہ اج کی اخبارات میں یہ خبر بڑے حروف میں نمایاں چھپ چکی ہے۔ کیا خبر چھپی ہے کہا اسپیکر قومی اسمبلی اور چیرمین سینٹ کی تنخواہوں میں پانچ سو 500 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اب ان کی تنخواہیں 13 لاکھ کر دی گئی ہیں اور اس کا اطلاق اس سال جنوری سے ہوگا۔ اس سے پہلے ان کی تنخواہیں دو لاکھ پانچ ہزار تھیں۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی کے ارکان اور سینٹ کے ممبران کی تنخواہیں پانچ لاکھ انیس ہزار کر چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ کیا انہیں یہی بے چارے لگے بابا کرموں سے پوچھا مجھے یہ بتا کہ بجٹ ہوتا کیا اسے ذرا اسان زبان میں بتانا۔ کہا بجٹ ایک مالی منصوبہ ہوتا ہے جس میں آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ دیا جاتا ہے، عام طور پر ایک مخصوص مدت یعنی ایک سال کے لیے دیا جاتا ہے یہ بجٹ ہرسال جون میں لایا جاتا ہے۔پوچھا بجٹ کی تعریف کیا ہے۔ کہا بجٹ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کتنی آمدنی اس سال متوقع ہے اور اس آمدنی کو کن کن کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ پوچھا بجٹ کے اہم اجزا:کیا ہیں۔ کہا پہلا آمدنی ہے یعنی حکومت کو کہاں سے پیسے ملیں گے جیسے ٹیکس، کاروبار، تنخواہ وغیرہ پھر نمبر دو پر خراجات ہیں یعنی پیسے کن کن شعبوں میں خرچ کیے جائیں گے جیسے تعلیم، صحت، دفاع، روزمرہ اخراجات وغیرہ پھر نمبر تین میں پہ آتا ہے خسارہ یا فاضل جسے انگریزی میں (Deficit or Surplus): اگر اخراجات ، آمدنی: خسارے کا بجٹ اسی طرح اگر آمدنی اخراجات فاضل بجٹ ہے یعنی اگر حکومت کی آمدنی 100 ارب روپے ہے اور اخراجات 120 ارب روپے، تو یہ خسارے کا بجٹ کہلائے گا اور اگر آپ ذاتی بجٹ کی بات کر رہے ہیں تو وہ بھی اسی اصول پر ہوتا ہے۔ پاکستان کا قومی بجٹ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہر مالی سال کے آغاز سے پہلے پیش کیا جانے والا ایک مالی منصوبہ ہے۔ یہ بجٹ وفاقی حکومت کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیل پر مشتمل ہوتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔جیسے کہ اب اس سال کا بجٹ آ چکا ہے۔پاکستان میں مالی سال یکم جولائی سے 30 جون تک ہوتا ہے پوچھا یہ بتائیں کہ پاکستان کے قومی بجٹ کے اہم نکات:کیا ہیں۔ کہا آمدنی (Revenue) یہ وہ پیسہ ہے جو حکومت مختلف ذرائع سے حاصل کرتی ہیجیسے ٹیکس آمدنی انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پوچھا غیر ٹیکس آمدنی کیا ہوتے ہیں۔ کہا سرکاری اداروں کی آمدنی، لائسنس فیس، اسٹیٹ بینک سے منافع ہے۔ پوچھا اخراجات کسے کہتے ہیں کہا یہ وہ رقوم ہیں جو حکومت مختلف شعبوں پر خرچ کرتی ہے۔جیسے دفاع، تعلیم، صحت ترقیاتی منصوبے قرضوں کی ادائیگی سبسڈیز اور سوشل پروگرامز (جیسے احساس پروگرام) پوچھا بجٹ کی کتنی اقسام ہیں کہا خسارے کا بجٹ (Deficit Budget): جس میں اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوں اور فاضل بجٹ (Surplus Budget): آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو اسی طرح متوازن بجٹ (Balanced Budget): جس میں آمدنی اور اخراجات برابر ہوں۔ پوچھا
بجٹ کیسے پیش کیا جاتا ہے؟ کہا وزیر خزانہ بجٹ تقریر قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہیں۔ پھر اراکین اسمبلی بجٹ پر بحث کرتے ہیں۔پھر اس میں ترامیم کی گنجائش ہوتی ہے۔پھر بجٹ کی منظوری دی جاتی ہے پوچھا عوام پر بجٹ کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ کہا عام آدمی کی زندگی پر مہنگائی سبسڈی، ٹیکس کاروباروں پر ٹیکس چھوٹ یا اضافہ سرمایہ کاری اور ترقی ہے اگر کہا جائے یہ بجٹ خاص طور پر ٹیکس ریفارمز، ٹیکس نیٹ توسیع، سماجی بحالی، صنعتی مراعات اور قرض پر صورتحال کو منظم کرنے پر زور دیتا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ تاہم اس بجٹ میں IMF کی شرائط بھی واضح نظر آ رہی ہیں، جیسے بجٹ خسارے کو GDP کے 5% کے اندر رکھنا وغیرہ ہے۔اگر آئی ایم ایف کہہ دیں کہ کسی قومی اسمبلی کے سپیکر سینٹ کے چیئرمین تمام ججز تمام پرائیوٹ کاپوریشن کی تنخواہ پانچ لاکھ سے زیادہ نہ ہو۔ مگر آئی ایم ایف ہمیشہ اس وقت حرکت میں اتے ہیں جب بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں میں کمی حکومت کرتی ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس بجٹ سے نہیں لگتا کہ ہم اگلے سال بھی ان سے جان چھڑا سکیں گے۔

Exit mobile version