Site icon Daily Pakistan

جرس نارسا

ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ نماز قرآن پڑھنا تو دور کی بات ہے کائنات کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کا بھی وقت نہیں زندگی اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اس طرح گزر رہی ہے جیسے جانور،کھانے کی جگالی کر لی، رات ہوئی تو سو لیا ، نیند میں خوفناک قسم کے خراٹوں کے ساتھ حلق سے بیہودہ آوازیں نکال لیں ،کھا لیا ،سولیا، فضول تبصرے بس یہ زندگی رہ گئی ہے۔ چار آدمی بیٹھیں گے تو کسی کی برائی شروع کر دیں گے یا کاروبار 10 زیر بحث ہو گا دولت کمانے اور کماتے رہنا زندگی کا منشور بن چکا ہے۔ نہ اخلاقیات نہ دینیات نہ خدمت خلق نہ ہی دوسروںکے غم دکھ تکلیف میں شامل ہونا، اپنی زندگی،اپنے ہی دائرے میں چلتی رہتی ہے بلکہ یوں کہئے چل رہی ہے دولت کمانے کے نئے نئے حربے، نئے ماڈل کی گاڑی فائیو سٹار ہوٹلز میں کھانا۔ مشہور ومعروف بر انڈکے قیمتی لباس محافل میں بیٹھ کر خلیل جبران کی طرح کی باتیں، یہی کچھ ہے زندگی۔ جو اس دائرے میں فٹ نہیں ہوتا اسے دقیانوس پرانے زمانے کا چمٹریس کہہ دیتے ہیں۔مادر پدر آزاد زندگی جنگلی حیات کا فلسفہ کامیاب -آزاد زندگی گزارنے کے یہی لواز مات چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں۔ تبلیغ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، لیکن ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں کیا تبدیلی آئی ۔ کون سا جرم ہے جو ہماری اسلامی ریاست میں نہیں ہو رہا ۔ ماشا اللہ مٹھی بھر حکومت کرنے والے خطرات کی داستان حیات رنگینیوں سے لبالب بھری پڑی ہے جب راہبروں کا یہ حال ہوگا تو پھر معاشرہ مثالی کیسے بن سکتا ہے۔جب مقتدر اصحاب کی زندگی صالح نہیں ہوگی تو پھر ان کی تقلید میں چلنے والوں کا حشر کیا ہوگا ۔ میں سوچتا ہوں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انبیا اور ان کی قوموں کی تاریخ بیان فرمائی ہے۔ انبیا پر اور اللہ پر ایمان نہ لانے پر اور معاشرتی برائیوں کی وجہ سے اللہ نے ان اقوام کو برباد کر دیا اور تا قیامت آنے والی ان نسلوں کو ان کی مثال دیگر راہ راست پر چلنے کی ہدایت فرمائی اگر آپ کے پاس غور و فکر کرنے کا کچھ وقت ہو تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ تمام برائیاں ہم میں موجود ہیں۔ہماری بچت کی وجہ سرکار دو عالم کا امتی ہوتا ہے۔ بس یہی تعلق ہم پر اللہ کا عذاب نہیں آنے دیتا ورنہ عافیت کی کوئی راہ نہیں۔ ملک اور اس کے عوام اتنے بد قسمت ہو چکے ہیں کہ ان پر حکمرانی کرنے والے عیبوں میں لتھڑے ہوئے اخلاقی جرائم میں تربہ تر مفاد پر مت بے نیاز ،بے پرواہ، دولت کے پجاری عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے والے ،جس نام نہاد عوامی خدمت گزار سر پر سوار ہیں یہ عذاب کا ایک پر تو نہیں تو اور کیا ہے۔ کئی ممالک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے انکی ترقی خوشحالی اور دنیا میں انکی اہمیت ہمارے منہ پر طمانچہ ہے ۔ ان ممالک کی خوش بختی یہ ہے کہ انہیں ایسے راہبر ملے جنہوں نے اپنی ذات کو بھی ملک اور قوم کے لیے قربان کر دیا ۔ اپنی جیبیں نہیں بھریں سیاست کو عوامی امنگوں کے مطابقت میں ڈھال کر ملک کی ترقی کے لیے شب و روز کام کیا۔ ایسے قوانین بنائے جن کے تحت خبیث روحوں کو کرپشن کے جرم میں واپس اللہ کے پاس بھیج دیا۔ سخت قوانین اور شفاف تحقیقات نے لوٹ مار کرنے والوں کو تیر کی طرح سیدھا کر دیا ہمارے ہاں دولت ہر مصیبت کا علاج ہے کوئی بھی دم ہو وہ آسانی سے دولت کے سیارے میں محفوظ زندگی گزارلیتا ہے۔ نہ فکر نہ فاقہ عیش کر کا کا والا معاملہ ہے وہ ایک طاقت ہے جس نے ڈھیل دی ہوتی ہے اگر اس مالک نے طنابیں کھینچ دیں تو بچت کی راہ نہیں ہوگی۔ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ۔ کلف لگے ذہنوں کو میں کہتا ہوں غور کرو بے رنگ زمین میں بے رنگ بیج بو دیئے جاتے ہیں، اسے بے رنگ پانی دیا جاتا ہے ،پر رنگ برنگے پھول کھل جاتے ہیں، یہ سب کچھ کسی مالک کے حکم کی تعمیل میں ہو رہا ہے ۔ آج بھی مردہ زمین میں امانت کے طور پر مردہ دفن کر دیا جائے تو وہ محفوظ رہتا ہے اس میت کے پھول تک نہیں مرجھاتے ۔ روزانہ ہم دودھ کا استعمال کرتے ہیں اسکی افادیت کا سب کو پتہ ہے اس نعمت کو نور بھی کہا جاتا ہے کبھی یہ نہیں سوچتے گوبر اور خون کے درمیان پاکیزہ دودھ کس طرح جاری ہوتا ہے کوئی طاقت تو ہے جسکے بنائے نظام پر عمل ہوتا ہی جا رہا ہے انحراف نا ممکن ہے ۔ مکڑی مٹی کھاتی ہے اور مٹی اگلتی ہے اس اگلنے والی مٹی سے ریشم کی طرح ایک تارکا نکلنا اور پھر جالا بننا،کیا جیومیٹری کے اصولوں کے مطابق نہیں۔ خوبصورت دیدہ زیب ایک عظیم واقع اس کے ذریعے امر گیا، شہد کی مکھی پھولوں کو بوسہ دیتے ہوئے اسکا رس چوستی ہے۔ پھر شہد بناتی ہے ایسی خوراک جسے شفا بھی کہا جاتا ہے ۔ ان پڑھ مکھی کو اتنی تعلیم دینے والی ذات تو ہو گی ۔ کیا موتی خریدتے وقت ذہن میں یہ سوال نہیں ابھرتا کہ پانی کا ایک قطرہ بے جان سیپ کے باطن میں اتر کر کن مراحل سے گزار دیا جاتا ہے وہ موتی بین کر چمکتا ہے ۔ ساکن فضا میں زلزلے کے جھٹکے ۔ خاموش پہاڑ میں کے اندر سونے چاندی تانبا غرض ہر قسم کی دھاتیں بے پناہ خزانے سمیٹے ھوئے پہاڑ کس کے حکم کی تعمیل میں ہیں۔ قیمتی ہیرا کا ربن ہی تو ہے اسے خوبصورت شکل اختیار کرنے کا سلیقہ کس نے سکھایا۔ گہرے سمندر میں عجیب و غریب کرشمے سائنس اسے سمجھنے سے قاصر ہے ۔ چھوٹی سی انسانی آنکھ فرش سے عرش تک کے نظارے دیکھتی ہے۔وسعتیں کیسے اس چھوٹی سی آنکھ میں سمٹ جاتی ہیں، سب نظر کا کمال ہے۔ اگر ہم اپنے وجود پر غور کریں تو ہر عضو کی ساخت اور اسکا عمل حیران ہے اسی وجہ سے مالک کل نے فرمایا تم غور فکر کیوں نہیں کرتے اس ذات نے جسم اور روح کا رشتہ قائم کرکے انسان کی تخلیق کی یعنی اپنی روح اس میں اتاری لیکن انسان بھولا ہوا ہے۔انسان کے لیے تین زمانے ہیں ماضی حال اور مستقبل ۔ غور کریں تو لگتا ہے ابھی ماضی ختم نہیں ہوا ۔ہمارا دین ماضی کی تعلیم عقیدہ عہد گذشتہ سے متعلق حضرت اسماعیل کی قربانی کا واقعہ ماضی میں ہوا لیکن تقلید قیامت تک جاری رہے گی ۔ کربلا کا درد ناک واقعہ ہو چکا لیکن کر بلا ہر لمحہ تازہ ہے ۔ ماضی حال بنا رہا ہے پھر حال کہاں ہے مستقبل کا تو معلوم نہیں پھر ماضی ہی سب کچھ ہے اس پر غور کرتے ہوئے عمر گزر جاتی ہے ہم آزاد ہیں کیا واقعی ایسا ہے توپھرہم کیوں دینی و دنیاوی قوانین میں جکڑے ہوئے ہیں۔ موت اور حیات میرے اختیار میں نہیں اصل میں تو کچھ بھی اپنے اختیار میں نہیں پھر گھمنڈ کیسا ۔ناڈو خان کا سالابننے کی خواہش کے بجائے حقیقی معنوں میں اگر خالق کائنات کی بندگی کی جائے تو زندگی آسان بن جائے گی۔ لیکن ہم خوابوں کے باسی ہیں ایک فریب سے نکلنا ہی نہیں چاہتے اگر ایسا ہو جائے تو ملک اور قوم سے حالات بدل جائیں ۔ اگر سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے تو پھر جائز اور ناجائز ذرائع سے سٹمینا کیسا۔اے مالک اس خواب غفلت سے قوم کی آنکھیں بیدار کردے یہ جس ہستی کے امتی ہیں انکی نظر کرم ہو جائے تو ہر بگڑی بن جائے ۔ دین اور دنیا میں آسانیاں ہو جائیں۔قوم کے دن بدل جائیں کامیابیاں ، کامرانیاں نصیب بن جائیں مجھے یقین ہے ،کبھی تو ایسا ہو گا کیونکہ یہ شہیدوں کا دیس ہے۔

Exit mobile version