Site icon Daily Pakistan

جموں کشمیر ۔دم توڑتا بھارتی بیانیہ

یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پانچ برس قبل 5اگست 2019کو جب مودی سرکار نے آرٹیکل 370کا خاتمہ کیا تھا تو بھارت کے کچھ حلقوں نے خوشی اور فتح کے شادیانے بجاے تھے اور بھارتی میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ اب مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ مکمل ہو گیا ہے اور اب کوئی رکاوٹ باقی نہےں بچی ۔امت شاہ اور مودی نے کئی روز تک فتح کا جنشن منایا مگر وہ ایسا کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ یہ الفاظ شائد ان کےلئے ہی کہے گئے تھے ’
”تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہےں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہوجاﺅں گا“
بعد میں وقت اس امر کی حقانیت کو ثابت کررہا ہے تبھی تو وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے یو این میں خطاب کے دوران واشگاف الفاظ میں ایک جانب برہان وانی کی شہادت کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی اقوام عالم پر واضح کر دیا کہ اقوام متحدہ کو بہر صورت اپنی منظور کر دہ قراردادوں پر عمل کروانا ہی ہوگا۔اسی ضمن میں غیر جانبدار مبصرین کہہ رہے ہےں کہ ایک جانب بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے فاروق عبداللہ ،محبوبہ مفتی اور کانگریسی رہنما آرٹیکل 370اور 55اے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہےں تو دوسری طرف حریت قیادت اس امر کا اعادہ کر رہی ہے کہ کشمیر کا حل منصفانہ استصواب رائے کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔اسی تناظر میں یہ امر بھی اہم ہے کہ ملاشیشئا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے بھی گزشتہ روز کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی تائید کی ۔غیر جانبدار مبصرین نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ انتخابی ڈرامے کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہےے کہ مذکورہ انتخابات میں بین الاقوامی میڈیا کو یہ اجازت نہےں دی گئی تھی کہ اس انتخابی عمل کا کوئی مشاہدہ کر سکیں ۔صرف اسی ایک امر سے غالبا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ نام نہاد انتخابات کسی حد تک شفاف ہوئے ہونگے ۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے غیر قانونی بھارتی قبضے والے کشمیر میں ریاستی مقننہ کو معطل کرنے اور مسلم اکثریتی علاقے کو ہندوستان کی براہ راست حکمرانی کے تحت لانے کے پانچ سال بعد جموں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔مبصرین کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہندوستانی حکومت کی جانب سے خطے میں اپنے منتخب کردہ ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات میں توسیع کے فوراً بعد کیا گیا تھا۔اس معاملے کی تفصیل سے پہلے بھارتی غیر قانونی قبضے کشمیر کے محل و قوع کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی کل آبادی تقریباً 15 ملین ہے جس میںکشمیر کی آبادی 8.9 ملین ہے اور جموں کی آبادی 6.1 ملین ہے۔ کشمیر ڈویژن میں مسلم آبادی کا تناسب (96.41%)، ہندو (2.45%) اور سکھ آبادی کا تناسب (0.81%)ہے جبکہ جموں ڈویژن مسلمان (30%)ہندو آبادی (66%)کا تناسب ہے۔ یاد رہے کہ مسلم اکثریتی اضلاع میںراجوری (63%)، پونچھ (90%)، ڈوڈا (54%)، کشتواڑ (58%) اور رامبن میں (71%) مسلمان آباد ہےں جبکہ دو سری جانب جموں ریجنل کے ہندو اکثریتی اضلاع میں کٹھوعہ (88%)، سامبا (86%)، جموں (84%) اور ادھم پور میں (88%)ہندو آباد ہےں ۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ کل 8.8 ملین ووٹرز ہیںجن میں وادی کشمیر میں رجسٹر ڈ ووٹرز کی تعداد 4,626,810جبکہ جموں میں 4,176,210ووٹرز ہےں ۔یاد رہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی 90 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں 74 عام نشستیں، 7 درج فہرست ذاتوں (SC) کے لیے اور 9 درج فہرست قبائل (ST) کے لیے مخصوص ہیں۔علاوہ ازیں تمام 7 ایس سی سیٹیں جموں میں ہیں جبکہ 9 ایس ٹی سیٹوں میں سے 6 جموں میں ہیں۔مبصرین کے مطابق IIOJK میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات تین مرحلوں میں یعنی 18 ستمبر، 25 ستمبر اور 1 اکتوبر کو ہوئے جبکہ ووٹوں کی گنتی 8 اکتوبر کو ہوگی اوراس ضمن میں 7 اضلاع میں پولنگ ہوئی ۔تفصیل اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ پہلے مرحلے میں 24سیٹوں پر 219امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ اس مرحلے میں ووٹرز کی تعداد 2.3ملین تھی ۔مجموعی طور پر 3,276 پولنگ اسٹیشنز پر 14,000 پولنگ عملہ تعینات تھا اور مبینہ طور پر ووٹر ٹرن آ¶ٹ 61% رہا ۔اسی تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوسرے مرحلے میں 6 اضلاع میں پولنگ ہوئی ۔ جس میں26سیٹوں پر 239امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ اس مرحلے میں ووٹرز کی تعداد 2.5 ملین تھی ۔مجموعی طور پر 1,200 پولنگ سٹیشنوں پر1,700 پولنگ عملہ تعینات تھا اور مبینہ طور پر ووٹر ٹرن آ¶ٹ 57.03% رہا۔تیسرے مرحلے میں7اضلاع میں پولنگ کا قیام عمل میں آیا ۔جس میں 40سیٹوں پر 415امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ اس مرحلے میں ووٹرز کی تعداد 3.9 ملین تھی ۔مجموعی طور پر 3,728پولنگ سٹیشنوں پر13,000 پولنگ عملہ تعینات تھا اور مبینہ طور پر ووٹر ٹرن آ¶ٹ 69.65% رہا ۔مبصرین کے بقول اس ضمن میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے علاوہ ازیں مسئلہ کشمیر کا واحد قابل قبول حل اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے ہے، جو UNSC کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہےں کہ یہ انتخابات IIOJK میں معمول اور قانونی حیثیت کا غلط احساس پیدا کرنے کے لیے مصنوعی اور نمائشی ہیں۔یہ بھی کوئی راز کی بات نہےں کہ جموں میں آبادیاتی تبدیلیاں شروع کی گئی ہیں (آباد کاروں / ڈومیسائل کے اجراءکے ذریعے) وادی کی مسلم اکثریت کو کم ا کرنے کے لیے اور اس سلسلے میں 3.2 ملین ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر رہائشیوں کو جاری کیے گئے ہیں ۔اس کے علاوہ انتخابی حد بندیوں کرتے ہوئے جس طور جموں میں 6سیٹوں کا اضافہ کیا گیا اس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ دہلی سرکار ہر قیمت پر وادی کشمیر کی آبادی میں ہندو ووٹرز کی تعداد زیادہ ظاہر کرنا چاہتی تھی اور وہ اس ضمن میں کامیاب بھی ہوئی ۔ان تمام بددیانتی کے باوجود سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ مذکورہ انتخابات میں عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگرس پرمشتمل انتخابی اتحاد کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بی جے پی کےلئے کسی صدمے سے کم نہےں ہوگا۔

Exit mobile version