Site icon Daily Pakistan

جمہوریت اورسیاسی جماعتیں!

سیاست آگے بڑھنے کا نام ہے مگر پاکستان میں سیاسی گول دائرے میں سفر کرتی ہے۔ گھما پھرا کے اسے دوبارہ اسی مقام پر لاکھڑاکیا جاتا ہے، جہاں سے گزری ہوتی ہے، آج کی صورتِ حال کو دیکھیں تو سب کچھ واقعات کا ایکشن ری پلے نظر آئے گا، پرانے مقدمات ختم ہو رہے ہیں نئے مقدمات بن رہے ہیں۔ چہرے بدل گئے ہیں، واقعات وہی ہیں چار پانچ سال بعد آج کے مظلومین بھی یہی کہہ رہے ہوں گے کہ ہم پر جھوٹے مقدمات بنا کر بہت ظلم کیا گیا۔ کراچی میں آغا خان یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بہت درست کہا کہ آج کے مظلوم چند سال پہلے تک ظالموں کی قطار میں تھے۔ ظالم و مظلوم بدلتے رہتے ہیں اور فیصلہ نہیں ہوتا کس نے کب کس کو ظالم اور کسے مظلوم بنایا۔ کل لاہور میں نوازشریف نے پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کیں وہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں ان کا یہ نیا مطالبہ سامنے آیا ہے کہ صرف حکومت نہیں جعلی مقدمات پر احتساب بھی چاہتے ہیں،انکے سات سال کس نے ضائع کئے، کس نے جھوٹے مقدمات بنا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سب کے نام سامنے آ چکے ہیں مگر ان کا احتساب کون کرے گا؟ بات اس حد تک تو درست ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا ہے ، اس کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا گیا تو وہ مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا لیکن ایک بات پر نوازشریف خاموش ہو جاتے ہیں کہ آج جو کچھ عمران خان سے ہو رہا ہے کیا وہ بھی اسی روایت کے زمرے میں آتا ہے؟یا اسے وہ درست سمجھتے ہیں مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم آدھا سچ بولتے ہیں، حالانکہ مسئلہ تبھی حل ہوگا جب ہم پورا سچ بولیں گے۔ اپنے لئے سچ اور دوسروں کےلئے جھوٹ والی پالیسی نہیں چلے گی،پھر تو یہی کچھ ہوتا رہے گا بس نام اور چہرے بدل جائیں گے، ماضی کو درست کرنے کی روایت ہمارے ہاں اگر چل پڑی ہے،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی اگر سماعت ہو رہی ہے تو پھر باقی معاملات کا بھی جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ نوازشریف اگر سمجھتے ہیں کہ انکے ساتھ زیادتی ہوئی، مخصوص ججوں اور سابق جرنیلوں نے انکے خلاف منصوبہ بنایا تو اس کا فیصلہ بھی ہوجانا چاہیے۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پہلے ہی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے۔ اب اسے بند کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اس کےلئے سب سے اہم کردار کسی اور نے نہیں سیاستدانوں نے ادا کرنا ہے۔ ملک میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ انکی نااتفاقی اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روش کے باعث ہوا۔اس سے جان چھڑانی ہے تو پھر یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ سیاست کو صرف اقتدار کے لئے بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا۔
سیاسی قوتوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر سیاست ہی غیر سیاسی قوتوں کا آسان ہدف کیوں بن جاتی ہے، اس میں اتنی طاقت کیوں نہیں کہ اپنی حفاظت کر سکے۔ دنیا کی مضبوط جمہوریتوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا کیوں وہاں سیاست کسی کی باندی نہیں بنتی۔ نوازشریف کہتے ہیں عمران خان کو ایک سازش کے تحت مسلط کیا گیا، جس سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا جبکہ عمران خان یہ کہتے کہتے جیل چلے گئے لندن پلان کے تحت نوازشریف کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کون سچا ہے کون جھوٹا، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ یہ تو تبھی ہو سکتا ہے جب سیاستدان اتنی جگہ نہ دیں کہ کوئی دوسرا اونٹ بن کر ان کے خیمے میں داخل ہو جائے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اقتدار کی کشش ایک ایسی کمزوری ہے ،جسکا سبھی شکار ہو جاتے ہیں بس اشارہ ملنے کی دیر ہوتی ہے۔یہ مانگے تانگے کا اقتدار اپنے ساتھ مجبوریاں اور کمزوریاں بھی لاتا ہے پھر یہ شکوہ کیساکہ منتخب وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ جولاتے ہیں پھر وہ ڈکٹیٹ بھی تو کرتے ہیں، اس میں انہونی کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کسی وزیراعظم کو اس کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ کسی کو نکالا گیا اور کوئی خود دباو¿ برداشت نہ کر سکا۔ نکالنے کےساتھ ساتھ بعض کو نشانِ عبرت بنانے کی حکمت عملی بھی اختیار کی گئی تاکہ آنے والوں کو کان ہو جائیں۔ سیاسی مبصرین کی ایک محفل میں اس نکتے پر بحث ہو رہی تھی کہ بار بار ایک ہی نوعیت کے واقعات ہونے اور سیاسی قوتوں کو نشانہ بنانے کے باوجود سیاستدانوں نے سبق کیوں نہیں سیکھا۔ متحد کیوں نہیں ہوئے؟ یہ طے کیوں نہیں کیا کہ صرف ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آئیں گے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ اس پر اتفاق رائے موجود تھا کہ پاکستانی سیاست نظریات کی بجائے اقتدارکے گرد گھومتی ہے، اس لئے اقتدار کی چمک خیرہ کر دیتی ہے۔ چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنےوالے اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی کا دست نگر بن کر حاصل کیا گیا اقتدار ایک سیاسی خیرات ہے جو کسی وقت بھی بند کرکے دوسرے کو دی جا سکتی ہے۔ 76برس گزر گئے ہیں، پاکستان کےساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ممالک اپنا ایک مستحکم سیاسی نظام بنا چکے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے۔ کبھی مارشل لاکا خطرہ رہا اور نہ جمہوریت کے ختم ہونے کا ایک پائیدار نظام چل رہا ہے، جس کا نتیجہ معاشی ترقی و خوشحالی کی شکل میں نکل رہا ہے۔ یہاں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، ہوئے تو آزادانہ ہوں گے یا ان میں مداخلت کی جائے گی۔ اکیسویں صدی کے اس عشرے میں اس قسم کی باتیں دنیا کو حیران کر دیتی ہیں۔
تاریخ میں اگر کچھ غلط ہو ا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیوں کے خلاف بند باندھا جا سکے ۔ نوازشریف نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ان کے سیاسی مخالفین کی نظر میں شاید بے وقت کی راگنی ہوں، مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان سوالات کا جواب نہ ملا تو پھر کسی نئی شکل میں سامنے آ جائیں گے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں طاقت کا توازن ہی درست نہیں ہوسکا اور جمہوری و ریاستی قوتوں میں کھینچا تانی جاری ہے وہاں ان سوالوں کا جواب ملنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔کس طرح طاقت کے ایوانوں میں موجود چند شخصیات پورے ملک کے مفاد کو اپنی سوچ اور خواہش کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں؟ عمران خان نے بھی ویسے ہی الزامات لگائے جیسے نوازشریف لگا رہے ہیں۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے سوالات تو دہرائے جا رہے ہیں، ان کے جوابات نہیں مل رہے۔ ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ آج سے نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارا سیاسی سفر ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے۔ وہ قدم آگے بڑھتے ہیں تو تین قدم پیچھے آ جاتے ہیں۔ ہماری معیشت بھی اسی لئے ہمیشہ ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیںاور قرضوں میں ایسے جکڑے گئے ہیں کہ مستقبل میں ان سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہو سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کرلیں کہ جمہوریت کی پاسداری کریں گی اور صرف اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف کندھا پیش کرنے کی بجائے اصولوں اور نظریات پر قائم رہیں گی۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔

Exit mobile version