مودی کے دور حکومت میں بھارت میں جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈا عروج پر ہے۔سی این اے انسائیڈر کی خصوصی ڈاکومنٹری میں بھارت میں جھوٹی خبروں کے پھیلاو¿ کے متعلق نئے حقائق سامنے آئے جس کے مطابق دنیا بھر میں جھوٹ کے پھیلاو¿ میں بھارت نمبر ون پر ہے۔نومبر 2023 میں راجھستان کے انتخابات کے دوران کانگریس لیڈر اشوک گیلوٹ کے جلسے کی ویڈیو وائرل ہوئی۔وڈیو میں اشوک گیلوٹ کی تقریر کے دوران مودی کے نعرے بلند ہوتے دکھائے گئے اور اس وڈیو کو ویریفائیڈ اکاو¿نٹ رشی بگری پر شیئر کیا گیا جسے 488 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا۔متعدد نیوز چیکرز نے ویڈیو کو جھوٹا قرار دیا اور تقریر کی لائیو سٹریم سے ثابت کیا کہ جلسے میں کہیں بھی مودی کے نعرے نہیں لگائے گئے،اس سے پہلے کہ کوئی بھی وڈیو سچ یا جھوٹ ثابت ہو اسے لاکھوں ووٹرز میں پھیلا کر متاثر کردیا جاتا ہے۔2023 کے سٹیٹسٹا سروے میں بھارت میں سب سے بڑا خطرہ غلط اور جھوٹی خبروں اور معلومات کے پھیلاو¿ کو قرار دیا گیا۔ بھارت میں انتخابات کے دوران فری لانسرز سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہوتے ہیں جن کا کام سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی کیمپین چلانا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی کیمپینز زیادہ تر جھوٹ اور من گھڑت پروپیگنڈے پر مبنی ہوتی ہیں۔ ہزاروں آئی ٹی سیل ورکرز کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہائر کیا جاتا تاکہ وہ سوشل میڈیا پر اپوزیشن جماعتوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلا سکیں۔ انیل کمار جو کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل میں کام کرتا ہے۔ مختلف آرٹسٹس کو ہائر کرکے مودی کی تعریف اور اپوزیشن کیخلاف وڈیوز بنا کر وٹس ایپ پر وائرل کرتا ہے۔انیل کمار کو بی جے پی کے حق میں کوئی بھی جھوٹی اور من گھڑت معلومات پھیلانے کی اجازت ہے۔2019 میں بی جے پی نے محض اتر پردیش میں انتخابی مہم کیلئے انیل کمار جیسے 2 لاکھ سائبر ورکرز کو ہائر کیا تھا۔انیل کمارکا کہنا تھا کہ ہماری ایک مخصوص ٹیم ہے جسکا کام اپوزیشن جماعتوں کے کمنٹ سیکشن میں ہتک آمیز باتیں پوسٹ کرنا ہوتا ہے۔اپریل 2019 میں فیس بک نے 700 سے زائد اکاﺅنٹس کو بی جے پی کے متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے پر بند کیا تھا۔فیک نیوز بھارت میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ڈس انفو لیب نے 15 سالہ تحقیق کے بعد بھارت سے آپریٹ ہونے والے 750 جعلی میڈیا ہینڈلز کی کھوج لگائی جو کہ 119 ممالک میں جھوٹی خبر پھیلانے کا کام کرتے تھے۔سوادی چترویدی کی کتاب "آئی ایم ٹرول” میں دو سال کی ریسرچ کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ ایک منظم سسٹم کے تحت سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے۔ مودی سرکار جانتی ہے کہ انفارمیشن کتنا بڑا ہتھیار ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لیے وہ بھارت میں انفارمیشن کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔امریکی آزاد اشاعتی کمپنی ’سیج پبلی کیشنز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حالیہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں بھارت کی طرف سے اسرائیل کی حمایت میں حیران کن پروپیگنڈا کیا گیااور حماس پر بچوں کو اغواءکرنا، سر قلم کرنا، لاشوں کو جلانے کو بھارتی اکاو¿نٹس سے پھیلایا گیا۔ترکیہ کی نیوز ایجنسی انادولو نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتی میڈیا نے حماس کے 40 بچوں کو قتل کرنے کی جھوٹی خبر وائرل کی، جب کہ اسرائیلی فوج نے 40 بچوں کے قتل کی خبر کے بے بنیاد ہونے کی تصدیق کی۔ بھارتی میڈیا میں مصر اور اسرائیلی فوجیوں کو حماس کے فوجی بتایا جارہا ہے۔ ایک کنسرٹ کی وڈیوز کو حماس کے جشن کے طور پر دکھایا گیا، جو جھوٹ پر مبنی تھی۔ایک بھارتی صحافی نے اسرائیل کی حمایت میں بیان دیا کہ اسرائیل کو چاہیے کہ غزہ کی پٹی سے مسلمانوں کو ختم کردے۔ روس یوکرین جنگ میں بھارت نے ایک ویڈیو گیم کلپ دکھا کر جھوٹا پروپیگنڈا کیا۔28 جون کو فرانس میں ہونے والے حادثے کا الزام بھی بھارتی میڈیا نے مسلمانوں پر لگایا۔اشاعتی ادارے کے مطابق جھوٹی خبریں، من گھڑت پروپیگنڈا اور افواہیں پھیلانے میں ہندوستان پہلے نمبر پر ہے، اور دنیا میں 18 فیصد جھوٹی خبریں بھارت سے پھیلائی جاتی ہیں۔ اس سے قبل بھارت کی جانب سے 9 مئی کے احتجاج کے دوران پاکستان میں خانہ جنگی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔جریدے دکن کرونیکل نے بھی الیکشن میں جھوٹی خبروں کے پھیلاﺅ کے حوالے سے بتایا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سب سے بڑا چیلنج سماجی رابطوں کی سائٹس پر تواتر سے پھیلایا جانیوالا جھوٹ اور مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کے بطور پھیلائی جانے والی من گھڑت خبریں ہیں۔ جن کو تمام سماجی رابطوں کی سائٹس بالخصوص فیس بک سے ہٹانا چیلنج بن چکا ہے۔ اس ضمن میں بھارتی الیکشن کمیشن نے فیس بک، ٹویٹر، واٹس اپ، ٹک ٹاک سمیت بیشتر سماجی رابطوں کی سائٹس کی انتظامیہ کے ساتھ ایک اہم میٹنگ منعقد کی ہے۔ لیکن کئی سیاسی و سماجی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کو سماجی رابطوں کی سائٹس پر لاگو کرنا بڑا بہت مشکل کام ہے۔ آن لائن خبری پورٹل آلٹ نیوز کے ڈائریکٹر پراتک سنہا کہتے ہیں کہ بھارتی عوام کی ایک کوالٹی یہ بھی ہے کہ یہ من چاہی کسی بھی خبر کو آگے بڑھا دیتے ہیں اور اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان کی جانب سے پھیلائی جانے والی خبر یا ویڈیو یا تصویر معاشرے کے دیگر طبقات اوربالخصوص اقلیتوں پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔