حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی دانائی وحکمت ،فضائل و کردار اور بے مثال صلاحیتوں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں ۔آپ نے اپنے فرزند امام حسن کے نام جو وصیت نامہ تحریر کیا وہ بلند پایہ افکار کا خزانہ ہے اور دنیا کے سفر میں زاد راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔قارئین کیلئے اس کے کچھ مندرجات پیش خدمت ہیں ۔آپ نے فرمایا ”میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ سے ڈرتے رہنا ،اس کے احکام کی پابندی کرنا ،اس کے ذکر سے قلب کو آباد رکھنا اور اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ۔تمہارے اور اﷲ کے درمیان جو رشتہ ہے اس سے زیادہ مضبوط رشتہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ تمہارے پہلے والے لوگوں پر جو بیتی ہے اسے یاد رکھنا ،ان کے گھروں اور کھنڈروں میں چلنا پھرنا اور دیکھنا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ،کہاں اترے اور کہاں ٹھہرے ؟ تمہیں صاف نظر آئے گا کہ وہ سب دوستوں سے منہ موڑ کر چل دیے وہ وقت دور نہیں کہ تمہارا شمار بھی ان لوگوں میں ہونے لگے ۔لہذا اپنی اصل منزل اور اپنی آخرت کا دنیا سے سودا نہ کرو اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں زبان نہ ہلائو ۔جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس راہ میں قدم نہ اٹھائو ۔نیکی کی تلقین کرو ۔ہاتھ اور زبان کے ذریعے برائی کو روکتے رہو ۔جہاں تک ہو سکے بروں سے الگ رہو ،اﷲ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اثر نہ لو ،حق جہاں ہو ،اس تک پہنچ جائو ۔دین میں سوجھ بوجھ پیدا کرو ۔ہر معاملہ میں اپنے آپ کو اﷲ کے حوالے کر دو۔ کیونکہ ایسا کرنے سے تم اپنے آپ کو ایک مضبوط پناہ گاہ اور قومی محافظ کے سپرد کر دو گے ۔صرف اپنے پروردگار سے سوال کرو ،کیونکہ دینا اور نہ دینا بس اسی کے اختیار میں ہے ۔اپنے اﷲ سے بھلائی کے طالب رہو ۔میری وصیت کو سمجھو اور اس سے رو گردانی نہ کرو ،اچھی بات وہی ہے جو فائدہ دے اور اس علم میں بھلائی نہیں جو فائدہ مند نہ ہو ۔اے فرزند ! میری وصیت کو سمجھو اور یہ یقین رکھو کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے اور جو پیدا کرنے والا ہے وہی مارنے والا بھی ہے جو نیست و نابود کرنے والا ہے وہی دوبارہ پلٹانے والا بھی ہے اور جو بیمار کرنے والا ہے وہی صحت عطا کرنے والا بھی ہے ۔دنیا کا نظام وہی رہے گا جو اﷲ نے اس کیلئے مقرر کر دیا ہے ۔اے فرزند تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ کسی ایک نے بھی اﷲ سبحانہ کی تعلیمات کو ایسا پیش نہیں کیا جیسا رسولۖ اﷲ نے ۔لہذا ان کو نجات کا رہبر مانو ۔اے فرزند یقین کرو کہ اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت و فرماں روائی کے بھی آثار دکھائی دیتے اور ان کے افعال و صفات بھی کچھ معلوم ہوتے ۔مگر وہ ایک اکیلا اﷲ ہے جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے اس سے کوئی ٹکر نہیں لے سکتا ۔وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔وہ بغیر کسی نقطہ آغاز کے تمام چیزوں سے پہلے ہے اور بغیر کسی انتہائی حد کے سب چیزوں کے بعد ہے ۔بیٹا ! یاد رکھو کہ میری وصیت سے جن چیزوں کی تمہیں پابندی کرنا ہے ان میں سب سے زیادہ میری نظر میں جس چیز کی اہمیت ہے وہ اﷲ کا تقویٰ ہے اور یہ کہ جو فرائض اﷲ کی طرف سے تم پر عائد ہیں ان پر اکتفا کرو اور جس راہ پر تمہارے آبائو اجداد اور تمہارے گھرانے کے افراد چلتے رہے ہیں اسی پر چلتے رہو ۔اے فرزند! موت کو اور اس کی منزل کو جس پر تمہیں اچانک وارد ہونا ہے اور جہاں موت کے بعد پہنچنا ہے ہروقت یاد رکھو تاکہ جب وہ آئے تو تم اپنا حفاظتی سرو سامان مکمل او راس کیلئے اپنی قوت مضبوط کر چکے ہو اور وہ اچانک نہ تم پر ٹوٹ پڑے کہ تمہیں بے دست و پا کر دے۔دنیا نے خود بھی اپنی حقیقت واضح کر دی ہے اور اپنی برائیوں کو بے نقاب کر دیا ہے ۔اس دنیا کے گرویدہ بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں ۔وہ آپس میں ایک دوسرے پر غراتے ہیں ۔طاقتور کمزور کو نگل لیتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل رہا ہے ۔دنیا ان سے کھیل رہی ہے اور یہ دنیا سے کھیل رہے ہیں اور اس سے آگے کی منزل کو بھولے ہوئے ہیں ۔اے فرزند! یقین رکھو کہ رزق تو دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جس کی تم جستجو کرتے ہو اور ایک وہ جو تمہاری جستجو میں لگا ہوا ہے ۔اگر تم اس کی طرف نہ جائو گے تو بھی وہ تم تک آ کر رہے گا ۔ضرورت پڑنے پر گڑگڑانا اور مطلب نکلنے پر کج خلقی سے پیش آنا کتنی بری عادت ہے ۔دنیا سے بس اتنا ہی اپنا سمجھو جس سے اپنی عقبیٰ کی منزل سنوار سکو ۔اگر تم ہر اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے واویلا مچاتے ہو تو پھر ہر اس چیز پر افسوس کرو کہ جو تمہیں نہیں ملی ۔موجودہ حالات سے بعد کے آنے والے حالات کا قیاس کرو ۔ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو کہ جن پر نصیحت اس وقت تک کارگر نہیں ہوتی جب تک انہیں پوری تکلیف نہ پہنچائی جائے۔دوست بمنزلہ عزیز کے ہوتا ہے ۔سچا دوست وہ ہے جو پیٹھ پیچھے دوستی نبھائے ۔بہت سے قریبی بیگانوں سے بھی زیادہ بے تعلق ہوتے ہیں اور بہت سے بیگانے قریبیوں سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں ۔پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو ۔جو حق سے تجاوز کر جاتا ہے اس کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے ۔فرصت کا موقع بار بار نہیں ملا کرتا ۔کبھی آنکھوں والا صحیح راہ کھو دیتا ہے اور اندھا صحیح راہ پا لیتا ہے ۔برائی کو پس پشت ڈالتے رہو کیونکہ جب چاہو گے اس کی طرف بڑھ سکتے ہو ۔جاہل سے ناتا توڑنا ،عقل مند سے رشتہ جوڑنے کے برابر ہے ۔ہر تیر انداز کا نشانہ ٹھیک نہیں بیٹھا کرتا ۔جب حکومت بدلتی ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے ۔ راست سے پہلے شریک سفر اور گھر سے پہلے اپنے ہمسایہ کے متعلق پوچھ گچھ کر لو ۔اپنے خدمت گزاروں میں ہر شخص کیلئے ایک کام معین کر دو ۔جس کی جوابدہی اس سے کر سکو ۔اس طریقہ کار سے وہ تمہارے کاموں کو ایک دوسرے پر نہیں ٹالیں گے ۔اپنے قوم ،قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمہارے ایسے بال و پر ہیں کہ جن سے تم پرواز کرتے ہو اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو اور تمہارے وہ دست و بازو ہیں جن سے حملہ کرتے ہو ۔میں تمہارے دین اور تمہاری دنیا کو اﷲ کے حوالے کرتا ہوں اور اس سے حال و مستقبل اور دنیا و آخرت میں تمہارے لیے بھلائی کے فیصلہ کا خواستگار ہوں ”۔والسلام۔
حضرت علی کی وصیت
