حالات کے تےور دےکھتے ہوئے راقم نے اپنے گزشتہ کالم مےں بھی عرض کےا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو سائفر کےس کے بعد ممکنہ طور پر توشہ خانہ کےس مےں بھی سزا ہو سکتی ہے اور اےسا ہی ہو اکہ اس جرم مےں نہ صرف انہےں بلکہ ان کی اہلےہ بشریٰ بی بی کو بھی چودہ چودہ سال قےد مشقت کا جھومر پہنا دےا گےا ابھی تک ملکی و بےن القوامی تجزےہ نگار سائفر کی وادیءحےرت سے نکلنے بھی نہ پائے تھا کہ جج محترم بشےر نے بھی تمام تر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا چھکا داغ دےا بےان کردہ کہانی کے مطابق اس کےس مےں بھی خان سے اس کے تحفظ کا حق نہ صرف چھےن لےا گےا بلکہ انہےں 342 کا بےان دےنے کی مہلت بھی نہےں دی گئی جس کی شاےد اس سے قبل کوئی مثال موجود نہےں ہے جبکہ اس سے اےک دن قبل جج ابو لحسنات نے بھی اےک اےسی ہی مثال قائم کی تھی جس مےں خان کے علاوہ شاہ محمود قرےشی کو بھی نہ تو گواہوں پر جرح کرنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی گواہ طلب کرنے کی ۔ اس سارے کھےل کا دلچسپ پہلو ےہ ہے کہ فےصلہ آنے کے فوری بعد بشریٰ بی بی از خود اڈےالہ جےل گئےں اور گرفتاری پےش کر دی اور جےل حکام نے تھوڑی سی پس و پےش کے بعد انہےں گرفتار کر لےا ۔ توشہ خان کےس بھی اس ملک مےں اپنی نوعےت کا واحد اور منفرد کےس ہے، وہ تحائف جو بےرونی دنےا کے دوروں کے دوران مختلف ممالک کے حکمران ہمارے وزےر اعظم ےا کسی اور اعلیٰ سےاسی ےا سرکاری شخصےت کو ملتے ہےں وہ اصول و ضوابط کے مطابق توشہ خانے مےں جمع کرائے جاتے ہےں جن کو پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے ان کی قےمت کا محض بےس فی صد ادا کر کے خرےدا جا سکتا تھا لےکن ےاد رہے کہ قےمتی کارےں اس سے مستثنیٰ تھےں لےکن خان کی حکومت مےں توشہ خانے کے تحائف کے بارے مےں ےہ قانون بنا دےا گےا کہ اب غےر جانبدار ذرائع سے ان کی قےمت لگوانے کے بعد انہےں نصف قےمت پر خرےدا جا سکتا ہے سابقہ وزےر اعظم نے بھی جب گھڑی سمےت دےگر چند اشےاءخرےدےں تو ان کی لگائی قےمت اےک کڑور اسی لاکھ روپے بنی جس کی نصف قےمت ادا کر کے قانونی طرےقہءکار کے مطابق انہےں خرےد لےا گےا لےکن بعد ازاں جب ےہ کےس نےب مےں پہنچا تو اس معتبر ادارے کی جانب سے کہا گےا کہ ان کی قےمت کا غلط اندازہ لگاےا گےا ہے جو کہ اےک کڑور اسی لاکھ نہےں بلکہ تےن ارب سے بھی زےادہ بنتی تھی لےکن اس الزام کو ثابت کرنے کی نہ ہی تو زحمت کی گئی اور نہ ہی اس کی نوبت آ سکی اور یوںسابق وزےر اعظم اور ان کی اہلےہ کو اس جرم مےں چودہ چودہ سال قےد با مشقت کی سزا دی گئی۔ہمارے قارئےن کو ےاد ہو گا کہ پی ڈی اےم کے دور مےں اےک دفعہ توشہ خانہ کا رےکارڈ بھی طلب کےا گےا تھا تا کہ اندازہ ہو سکے کہ اس سے قبل کن کن حکمرانوں ےا سےاسی شخصےات نے اس گو دام سے قےمتی چےزےں خرےدےں جن مےں مےاں نواز شرےف، آصف علی زرداری اور سابق وزےر اعظم ےوسف رضا گےلانی کے علاوہ دےگر اور کئی پردہ نشےنوں کے نام بھی شامل تھے مقام حےرت ہے کہ ان مےں سے نواز شرےف اور آصف زرداری کا شمار ملک و قوم کا درد رکھنے والے ان شرفا مےں ہوتا ہے جنہوں نے توشہ خانے سے مرسےڈےز اور بی اےم ڈبلےو جےسی مہنگی کارےں محض بےس فی صد ادائےگی کے ساتھ خرےدی تھےں اس کے علاوہ مرےم نواز کے بارے مےں بھی اطلاعات ہےں کہ انہوں نے بھی اےک بی اےم ڈبلےو کار اسی نےلام گھر سے خرےدی مگر مملکت خداداد کے منصفوں سے کون ےہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ ان مےں سے کسی اےک کے خلاف بھی اب تک کےوں کوئی کارروائی نہےں کی گئی آگے چل کر اس کےس کی اپےل مےں کےا کےا مناظر سامنے آئےں گے اس سے قطع نظر پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ الےکشن سے محض اےک ہفتہ قبل انتہائی جلد بازی مےں ان مقدمات کے فےصلے آخر کےوں ضروری تھے کےا صاحبان اختےار ےہ سمجھتے تھے کہ ان فےصلوں کے رد عمل مےں اےک دفعہ پھر نو مئی جےسے مناظر تخلےق ہو سکتے ہےں جن کو بہانہ بنا کر آسانی سے الےکشن کا التوا ممکن بنایا جا سکے ہے ،کےا ےہ خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کو آخری حدوں تک دبانے کے بعد ےہ فےصلہ ان کے عزم و حوصلے کو توڑنے کا سبب بن سکے گا سچ تو ےہ ہے کہ ےہ خوش گمانےاں ہےں جن کا زمےنی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہےں۔ اہل علم و دانش حےران ہےں کہ ملک کیساتھ آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔حالات کی سنگینی نے عوام کو بے خوف کردیا ہے ،ےہ ابہام پےدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ نشے کا عادی ہے اور اےک رات تک جےل مےں نہےں گزار سکے گا لےکن عملی طور ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے ساتھےوں کو توڑنے کی کوشش کی گئی لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے اس طرح پی ٹی آئی مےں شامل گندگی تو چھٹ گئی اور ان سے کہےں زےادہ بہتر اور با شعور حلقے مل گئے جس نے اسے مزےد مضبوط کر دےا اس کے گھر کی عزت کو مےڈےا مےں زےر بحث لا ےا گےا کہ شاےد ےہ اس طرےقے سے قابو آ سکے ( حالانہ مہذب معاشروں مےں عورت کو صرف احترام اور قدر کی نگاہ سے دےکھا جاتا ہے) لےکن ہم نے ےہاں بھی اخلاقی برہنگی کی ہر حد کو عبور کر ڈالی، نتےجہ کےا نکلا ؟ وہ اہلےہ جس کے بارے مےں کہا جاتا ہے کہ خان صاحب ان کے بارے مےں بہت حساس ہےں نے سزا کا فےصلہ سننے کے بعد خود ہی گرفتاری دےنے کے لئے پہنچ گئی اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کی قےادت نے اس موقع پر جس دانش کا مظاہرہ کےا اس نے تو سب کو حےران کر کے رکھ دےا، ےہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ نکلی خان نے اپنے ورکروں کو واضح الفاظ مےں ےہ پےغام دے دےا کہ خبردار اس وقت کسی قسم کا کوئی رد عمل دےنے کی ضرورت نہےں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز اپنے جذبوں کا زندہ رکھتے ہوئے آٹھ فروری کا انتظار کرےں اور زےادہ سے زےادہ لوگوں کو پولنگ سٹےشنوں پر لا کر ووٹ پول کرانے کی کوشش کرےں، چونکہ اس ظلم اور جبر کا مقابلہ اس وقت عدالتوںکے ذرےعے نہےں کےا جا سکتا بلکہ جبر کی اس دےوار کو صرف اور صرف ووٹ کی قوت سے گراےا جاسکتا ہے سو ہم نے دےکھا کہ ورکرزہر غم سے بے نےاز ہو کر صرف اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہےں جو کہ وہ تمام تر رےاستی دباﺅ کے با وجود آٹھ فروری کو ممکنہ طور پر حاصل کر سکتے ہےں لےکن حےرت اس بات پر ہے کہ کےا صاحبان اختےار پر حکمت و دانش کے تمام دروازے بند ہو چکے ےاد رہے،کسی نے درست کہا ہے کہ کفر پر قائم معاشرہ تو زندہ رہ سکتا ہے لےکن ظلم پر قائم ہونے والی حکومت کی عمر بہت نا پائےدار ہوتی ہے، اللہ رب العزت ہمےں ملک و قوم کے وقار کے مطابق فےصلہ ساز قوتےں نصےب فرمائے امےن۔
حکمت و دانش کا قتل عام
