یہ جانتے ہوئے کہ جنگ مسائل و مصائب کی ماں ہوتی ہے ،حل نہیں۔ لیکن جہاں نسلیں گولہ بارود کی بارش میں پیدا اور جوان ہوئی ہوں، ہر روز موت جنہیں چھو کر گزر جاتی ہو ، جو پیدا ہی قسطوں میں مرنے کے لیے ہوتے ہوں،ان میں سے کچھ جری اگر دست قاتل کو جھٹک دینے کی راہ پر چل نکلیں ،تو ان کو مطعون کرنا ،یا انہیں ان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دینا درست بات نہیں ہے ۔ ماننا پڑے گا کہ حماس کے اس تحیئر آمیز حملے نے اسرائیلی عسکری تفوق کے تصور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے ۔معلوم نہیں کہ انسان اپنے تنازعات جنگ کیے بغیر حل کرنے کی منزل تک کب پہنچے گا ؟فی الحال تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فہم کو جنگ کے بغیر جیتنے کے لیے تربیت کی ضرورت ہے،جنگ دراصل ذہنی معذوری کا اعلان ہوتا ہے ، کیونکہ اپنے دشمن کی موت کا سامان کرنا خود اپنی موت کے اسباب پیدا کرنے کے برابر ہوا کرتا ہے ۔آج کل کی جنگوں میں انسانیت ہار جاتی ہے اور اسلحہ بنانے اور دلالی کرکے بیچنے والے جیت جاتے ہیں۔میں اس وقت غزہ کی انسانی آبادی اور پختہ تعمیرات سے معمور آبادی سے ہزاروں میل دور ایک پرامن شہر کے آرام دہ کمرے میں بیٹھا غزہ پر ہونے والے مسلسل ہوائی حملوں کو ٹی وی چینلز پر براہِ راست دیکھ اور سن رہا ہوں۔کوئی نہیں جانتا کہ جب ایک ہوائی حملے میں دھویں کا تند خو بادل نمودار ہوتا ہے ، جب شدید دھماکے کی آواز کسی بھی قسم کے ایمپلی فائرز کے بغیر بیک وقت چہار اطراف گونج جاتی ہے ، تب کوئی نہیں جانتا کہ اس دھویں کے بادل میں کتنے زندہ انسان جان سے چلے گئے ہیں،کوئی نہیں جانتا کہ کتنے صحیح سلامت اور صحت مند انسان شدید زخمی ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہو چکے ہیں۔غزہ میں پاور سپلائی بند ہے ، انٹر نیٹ منقطع ہے ،خوراک کی ترسیل روک دی گئی ہے ۔ادویات کے قحط نے سر اٹھا لیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن اپنی عمر ،اپنی صحت اور اپنی آخرت سے بے نیاز اپنی مٹتی ہوئی آواز میں میڈیا کے سامنے اسرائیل کی مکمل اور ہر طرح کی مدد کا اعلان کر کے کمرے کے دوسری طرف نکل گئے۔امکان ہے کہ یہ اعلان کرنے کے بعد امریکی صدر آرام کرنے چلے گئے ہوں گے لیکن اگلے ہی روز بحرہ روم میں پہلے ہی سے موجود ایک ائر کرافٹ کیرئر اسرائیل کے سامنے سمندر میں نمودار ہوتا ہے ، اس کے مسلح ہوائی جہاز غزہ پر بمباری کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔کیا امریکہ ایسی کارپٹ بمباری اپنے کسی شہر میں برداشت کر سکتا ہے ؟ بالکل نہیں کر سکتا ،وجہ یہ ہے کہ امریکہ بظاہر فلسطینیوں کو اپنے وطن سے بے دخل اور دور کرنا چاہتا ہے، لیکن درحقیقت سارا یورپ اور امریکہ یہودیوں کو اپنے ممالک سے بے دخل کر کے فلسطین میں آباد در آباد کرنے کے نام پر جمع کر رہے ہیں ۔تاریخ حیرت سے پورا منہ کھول کر کھڑی حیرت سے تماشا دیکھ رہی ہے کہ جن یہودیوں کو اسپین کے مسلم ادوار میں امن ،امان اور مسلمانوں کے برابر حقوق ،تحفظ اور سہولیات حاصل تھیں ،جن یہودیوں کو اسپین میں مسلم حکمرانوں کے زوال کے بعد ، قابض مسیحیوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نشانہ بنایا اور صفحہ ہستی سے معدوم کرنے کی کوشش کی تھی ، تب ان یہودیوں کو ترکیہ کی خلافت عثمانیہ میں جائے امن و امان ملی تھی۔ اس دور میں مشرقی یورپ کے ممالک بھی خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے تو یہودی موجودہ ترکیہ کے علاہ مشرقی یورپ ،روس کے بعض علاقوں اور ایران کے شہروں میں بھی آباد ہو گئے تھے ۔اس وقت بھی تہران میں یہودی ایک بڑی تعداد میں امن و امان کی زندگی گزار رہے ہیں ،بالکل اسی طرح جس طرح جمہوریہ ترکیہ میں۔پھر ہوا یوں کہ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد ،اور پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر مشرق وسطی کے آئندہ سو سال کا سیاسی اور حربی نقشہ مرتب کرنے والے برطانیہ اور امریکہ نے یورپ بھر میں پھیلے یہودیوں کو مشرق وسطیٰ میں کسی ایک جگہ آباد کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔یہ گویا ایک طرح سے یہودیوں کو مذہبی ریاست کے تصور اور قضیئے میں الجھا کر ان کےساتھ مسلمانوں کے صدیوں کے التفات اور دوستی کو مستقبل کی دشمنی کا عنوان بنانے کی تیاری تھی۔ ہٹلر کو تو یہودیوں کے حوالے سے یوں بدنام کیا گیا کہ دنیا میں اس پر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہے لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ باقی یورپی ممالک یہودیوں کو اپنے ممالک سے نکال کر اسرائیل میں آباد ہونے کی ترغیب کیوں دیتے ہیں؟ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں مذہبی حوالے سے سیاسی بات کرنا مناسب نہیں ،لیکن کیا یہ بات درست نہیں کہ عالمگیر سطح پر مسیحیوں نے یہودیوں کے ساتھ اپنی مخاصمت کو مسلمانوں کی طرف بڑی شاطرانہ مہارت سے منتقل کر دیا۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ؛فلسطینی جدوجہد آزادی مذہبی بنیادوں پر نہیں ، قومی بنیادوں پر استوار ہے۔تحریک آزادی فلسطین کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی مسیحی بھی پوری طرح سے اس مزاحمت اور جدوجہد میں شامل ہیں ۔یہ جدوجہد یورپ بھر کے یہودیوں کو مسیحی ملکوں سے بے دخل کر کے اسرائیل میں آباد کرنے اور اس مقصد کے لیے فلسطینیوں سے ان کا وطن ہتھیانے کے خلاف ہے اور خود یہودیوں کی ایک کثیر تعداد اس جدوجہد کی حمایت کرتی ہے ۔ ابھی غزہ سے انخلا کا نوٹس دینے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بدترین بمباری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ستم ظریف ایک انسان دوست اور امن پسند جوان ہے ، کہتا ہے کہ اگر واقعتا اسرائیلی میجر جنرل نمرود اور دیگر فوجی فلسطینیوں کے قبضے میں ہیں اور وہ انہیں غزہ کے علاقے میں رکھتے ہیں اور ان کے ریکارڈڈ بیان میڈیا کو فراہم کر کے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اسرائیل غزہ پر ہر قسم کے ہوائی حملے بند کرے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔تو اسٹوری آگے بڑھ سکتی ہے۔ساتھ ہی امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کو اسرائیل کی مدد کو آتے دیکھ کر یہ بھی کہہ رہا ہے کہ؛ اگر اسرائیل کو حماس کے حملوں کا مقابلہ کرنے کےلئے امریکی ائر کرافٹ کیرئر کی مدد درکار ہے تو پھر متعلقہ ملک کا در فٹے منہ میں نے ستم ظریف کو جذباتی ہونے سے منع کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ فلسطینیوں نے تنگ آ کر اگر دست قاتل کو جھٹک دینے کی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کر ہی لیا ہے تو یقین رکھو کہ وہ جرات مند اس جرات کی قیمت بھی یقینا جانتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ دھمکی بزدل کا آخری ہتھیار ہوا کرتی ہے،اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی ردعمل سے پوری عرب دنیا کو بدل دینے کی دھمکی دی ہے ۔اسرائیلی وزیر اعظم کی اس دھمکی کا تعلق حماس یا دیگر فلسطینیوں سے نہیں ، بلکہ پوری عرب دنیا کے ساتھ ہے کہ ؛حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کا ردعمل پورے مشرق وسطی کو بدل کر رکھ دے گا۔بس عرب ممالک کی اوقات اتنی سی ہی تھی کہ ایک گبھرائے ہوئے مکار شخص کی دھمکی سے سہم کر غیر جانبداری کی چادر اوڑھ کر بیٹھے ،بلکہ لیٹے رہیں ۔اب جبکہ اسرائیلی ردعمل کا پاگل پن غزہ کی پٹی کے مکمل محاصرے کے بعد مسلسل ہوائی حملوں سے بے نقاب ہو چکا ہے ،وقت اسرائیل اور امریکہ کے طرز عمل کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ حماس نے اسرائیل کو ایک حیرت انگیز حملے کا نشانہ بنا کر جنگ کو دعوت دینے کی حماقت کی ہے ،ایسا نہیں ہے ۔یہ جنگ رکی کب تھی ؟ ہر روز فلسطینی اپنی باری آنے پر قسطوں میں مر رہے تھے۔حماس نے تو اس جنگ کی بند گٹھڑی کو کھول کر رکھ دیا ہے۔اسرائیل کا فوری ردعمل بالکل وہی ہے ،جس کا اندازہ لگایا گیا تھا ، لیکن اسرائیل میں کوئی ایک بھی حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے مستقبل قریب کے ردعمل کا اندازہ نہیں کر سکتا۔اسرائیل پر عذاب بن کر ٹوٹ پڑنے والے فلسطینی جنگجووں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل کے اندر مختلف شہروں میںگم ہو چکی ہے۔فلسطینی جنگجووں کی اس گم شدگی نے اسرائیلی منصوبہ سازوں کو گلے سے پکڑ رکھا ہے۔
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی ہمت
