(گزشتہ سے پیوستہ)
بے وقت کی راگنی کے چار ابواب میں منقسم 65 موضوعات جہاں ایک طرف بے درد و بے حس مرقعے دکھاتے ہیں ،تو دوسری طرف بے شرم و بے ضمیرحقیقتوں کے سراغرساں بھی ہیں ، جہاں یہ موضوعات "بے خوف و بے مثل تصویروں کی نقاب کشائی کرتے ہیں تو وہیں یہ "بے شناخت و بے گھر ہونے کے شہر آشوب کی اشک بار فضا میں بھی لے جاتے ہیں۔یہ سب بے وقت کی راگنی کے عنوانات ہیں۔رخشندہ پروین کی یہ پرشور کتاب پاکستان میں اکیسویں صدی کی ذہنی فضا کے نصاب کا ایک لازمی حصہ شمار کی جانی چاہئے۔ اس نصاب سازی کی تفصیلات ہمارے سماجی، سیاسی ، ثقافتی اور اخلاقی تضادات کے سفید کاغذ پر سیاہ برش سے بنائی گئی تصویروں کی طرح نظر آتی ہیں۔ابواب کے عنوانات کی معنی خیزی مشمولات کے خلاصے کی طرح دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے خطے میں ہجرت کے واقعات اور متنوع تجربات نے اپنے ہزار رنگ نتائج کے ساتھ انسانیت کے رنگ و آہنگ کو عموما اداس اور قدرے مایوس کر رکھا ہے۔یہاں انگریزوں نے سن اٹھارہ سو ستاون کے بعد یہ سوچ لیا تھا کہ ایک بڑے مقصد کے لیے بلا امتیاز مذہب ، زبان ،علاقہ اور قبیلہ یک جا ہو کر ایک مسلم بادشاہ کے جھنڈے تلے آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں افتراق و تقسیم کے بیج کاشت کرنے پڑیں گے۔اور انہوں نے وہ بیج کاشت کئے ۔ یہ تقسیم مذہب کے اختلاف سے شروع ہوئی اور زبان ، معیشت، معاشرت ، سیاست اور اس سے آگے بڑھ کر تعلیم ، غرض ہر شعبے میں ہوتی چلی گئی۔برصغیر کی مسلم کمیونٹی خاص طور پر نشانہ تھی ،یہاں کمیونٹی کے اندر افتراق کو فروغ دینے کےلئے انگریزوں نے طرح طرح کے فرقہ وارانہ اسکول قائم کروائے۔ اس کا ایک سب سے بڑا فایدہ یہ ہوا کہ مسلم معاشرے میں طبقاتی جدوجہد کرنے کے شعور کی جگہ مسلکی اور فرقہ وارانہ تفریق ، مسلسل کشیدگی اور بالآخر جنگ نے لے لی۔ ان سارے اقدامات کے حتمی نتائج ایک وسیع اور تکلیف دہ ہجرت کا باعث بنے۔اس ہجرت کی لاکھوں داستانیں اور ہزاروں صورتیں تھیں، ہر مہاجر کسی نہ کسی کنارے ضرور لگا، سوائے خطہ بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان جانے والی مسلم کمیونٹی کی ہجرت کے، بہار کے مسلمان گھرانے اپنے خوابوں کے وطن مشرقی پاکستان پہنچے، جس کے بنگلہ دیش بنتے ہی پہلی افتاد غیر بنگالی مسلم کمیونٹی یعنی بہاریوں پر پڑی۔بنگالیوں نے مغربی پاکستان کا سارا غصہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانےوالے بہاریوں پر اتار دیا ۔جو بہاری پاکستانی ہجرت کے مواقع اور وسائل رکھتے تھے، وہ جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر اور جان بچا کر مغربی پاکستان چلے آئے ،جو وسائل اور مواقع نہیں رکھتے تھے وہ اپنی شناخت کے معدوم ہونے کے انتظار میں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور کر دیئے گئے۔آج تک کسی مفکر اور ملا نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ وہ اسلامی اخوت یا امت واحدہ یا ملت اسلامیہ کہاں چلی گئی کہ جس نے اسلام کیلئے ایک علحدہ اور آزاد مسلم ریاست حاصل کرنے کی مشترکہ جدوجہد کے بعد ایک ذرا سے سیاسی تغیر کے ساتھ ہی اسلامی اخوت سے بندھی ملت اسلامیہ کو فی الفور بنگالی اور بہاری بنا دیا۔ رخشندہ پروین کا درد سمجھا جا سکتا ہے جب وہ پورے خلوص اور گہرے درد کے ساتھ کہتی ہے کہ؛ "…ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ ایک ایسی قوم کے سامنے بھی جو کرکٹ جیسے کھیل کو تو جنگ سمجھ کر دیکھتی ہے، مگر جنگ کو چاہے؛ وہ سابقہ مشرقی پاکستان میں ہو یا موجودہ پاکستان میں، غالبا کھیل تماشا ہی جانتی ہے۔ لیکن جیتے جاگتے لوگوں کو ، لاوارثوں کو ، بے بسوں کو ، بے وطنوں کو کسی شطرنج کی بساط کا مہرہ نہیں بنانا چاہیے۔( ص183 )رخشندہ پروین جو بات ابھی تک نہیں جان پائی ، یا اگر وہ جان بھی گئی ہے تو ابھی تک یقین نہیں کر سکی ؛کہ یہاں بالادست طبقات کے کان یک طرفہ سماعت اور یک طرفہ بصارت کے عادی ہیں ، وہ نہ چیخ سنتے ہیں ،نہ کوئی پکار۔وہ صرف اپنی طبقاتی بقا کو قلعہ بند کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔رخشندہ پروین نے ایک پاکستانی شہری کے طور پر بڑی دلیر زندگی گزاری ہے ۔وہ اپنی دلیری کی قیمت بھی چکاتی رہتی ہے ۔وہ ہارنے والی نہیں ہے، کیونکہ جو بول سکتی ہے ، جو لکھ سکتی ہے، وہ کامیاب بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا یہ لہجہ اس کی مایوسی اور اداسی کو اس کی طاقت بنا دیتا ہے؛ "میں اس بد نصیب، بے وطن اور بھلا دی گئی بہاری کمیونٹی سے ہوں ، جنہوں نے متحدہ پاکستان کے حق میں کھڑے ہو کر پاکستانی فوج کی حمایت کی اور اپنے آزادی پسند بنگالی دوستوں، رشتہ داروں، ساتھیوں اور پڑوسیوں کی پر تشدد ناراضگی کا سامنا کیا، یہ وہی کمیونٹی ہے جس نے بدترین قتل و غارت سہ کر بے گھری جھیلی ہے۔ اسلام آباد میں پروان چڑھتے اور عمر رسیدہ ہوتے ہوئے، اپنی بہاری شناخت کی وجہ سے کئی بار زندگی کے مختلف مراحل میں دھونس، ہراسانی، ذلت اور امتیازی سلوک کا سامنا کیا ہے۔ تاہم، میری ذاتی مشکلات میرا بنیادی مسئلہ نہیں ہیں۔ جو چیز واقعی دل کو چیر دیتی ہے ،وہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، وغیرہ اور آزاد پریس کے نام نہاد چیمپیئنز کی مجرمانہ خاموشی ہے ۔ (ص251) ڈاکٹر رخشندہ پروین کو علم ہونا چاہیئے کہ؛ وسائل پر متصرف اور نقد ترغیبات و نوازشات کی گرد میں چھپا طبقہ کوئی غیر از مفاد صدا نہیں سنتا۔ یہ طبقہ اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ یہاں کے مظلوم یک جا اور یک آواز نہیں ہوتے، ان مقہور طبقات کو انواع و اقسام کی تفریق کی زنجیریں پہنا دی گئی ہیں ، یہ زنجیریں مسلکی بھی ہیں اور قبائلی بھی ، یہ زنجیریں لسانی بھی ہیں اور نسلی بھی۔ رخشندہ پروین کی صدا کو میں بے وقت کی نہیں ، سراسر بروقت کی راگنی شمار کرتا ہوں۔کیا پتہ کب دل سے نکلنے والی بات اثر کر جائے۔ شاید اسی لیے میں نے ابھی کہا تھا کہ؛ رخشندہ پروین کی اس پرشور کتاب کو پاکستان میں اکیسویں صدی کی ذہنی فضا کے نصاب کا ایک لازمی حصہ سمجھنا چاہیئے۔ اس نصاب سازی کی تفصیلات ہمارے سماجی، سیاسی ، ثقافتی اور اخلاقی تضادات کے سفید کاغذ پر سیاہ برش سے بنائی گئی تصویروں کی طرح نظر آتی ہیں۔