Site icon Daily Pakistan

سرحد پر بھارتی فوج کی تعیناتی ، چین کا انتباہ

نئی دہلی نے ہمالیہ سے متصل اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں چین کے ساتھ اپنی 532 کلومیٹر طویل سرحد کی حفاظت کے لیے اپنی مغربی سرحد سے 10 ہزار فوجی تعینات کیے ہیںجو پہلے اس کی مغربی سرحد پر تعینات تھے۔ اس عمل پر چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ کا ماننا ہے کہ بھارت کا اپنی متنازع سرحد پر مزید فوجیوں کو بھیجنے کا اقدام ’کشیدگی کم کرنے کے لیے سازگار نہیں ہے۔
بھارت نے ہمالیہ سرحد پر فوج ا±س وقت تعینات کی ہے جب کہ ا±س نے حال ہی میں چین کے ساتھ سرحدی مسائل کے حل کے لیے فوجی اور سفارتی طور پر بات چیت کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
چین کا کہنا ہے کہ چین سرحدی علاقوں کے امن اور استحکام کے تحفظ کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کا طرز عمل امن کے تحفظ اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سازگار نہیںہے۔سرحدی علاقوں میں بھارت کی فوجی تعیناتی میں اضافہ سرحدی علاقوں میں حالات کو پرسکون کرنے یا ان علاقوں میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں مدد نہیں کرتا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان 3 ہزار 800 کلومیٹر طویل مشترک سرحد ہے، جس میں سے زیادہ تر کی حد بندی ناقص ہے۔ 2020 کے وسط میں اس علاقے میں جھڑپوں میں کم از کم 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے۔دونوں افواج نے پچھلے کچھ سالوں میں اپنی پوزیشنز مضبوط کی ہیں اور وہاں فوج اور ساز و سامان تعینات کیا ہے۔
بھارت کی کابینہ کمیٹی برائے سلامتی امور نے بھارتی حکومت نے چین کے ساتھ سرحد کی نگرانی کے لیے اگلے چند برسوں کے دوران ‘انڈو تبتن بارڈر فورس’ (آئی ٹی بی پی) کی مزید سات بٹالینز تیار کرنے کا اعلان کیا ہے اور آئی ٹی بی پی کے ایک سیکٹر ہیڈ کوارٹر کے قیام کی بھی منظوری دی ہے۔اس کے ساتھ ہی مرکزی مسلح دستوں کی نفری میں 10 فی صد کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ 2020 سے بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی اور تعطل کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ آئی ٹی بی پی کا قیام 1962 میں بھارت چین جنگ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس کا کام 3488 کلومیٹر بھارت چین سرحد کی نگرانی کرنا ہے۔
مبصرین کے مطابق مشرقی لداخ اور اروناچل پردیش میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان متعدد بار تصادم ہوا ہے اور چونکہ آئی ٹی بی پی پہلی دفاعی لائن ہے لہٰذا مذکورہ فیصلے سے سیکیورٹی میں اضافہ ہوگا اور چینی افواج کو نئے مقامات پر آگے بڑھنے سے روکا جا سکے گا۔ چینی افواج لداخ خطے میں دیپسانگ اور چارڈنگ نالہ علاقے میں کئی روایتی پوائنٹس پر بھارتی افواج کو نگرانی سے روکتی رہی ہیں۔ جب تک پہلی دفاعی لائن کو مضبوط نہیں کیا جائے گا سیکیورٹی کو کیسے یقینی بنایا جا سکے گا۔ اسی مقصد کے تحت نئی بٹالین بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپریل 2020 کے بعد یہ دیکھا گیا کہ جن علاقوں میں آئی ٹی بی پی کی تعیناتی نہیں ہے وہاں چین آگے بڑھنے لگا اور نئے نئے علاقوں پر قابض ہونے لگا۔ جب دونوں ملکوں کے درمیان فلیگ میٹنگ ہوتی ہے توچین کی دلیل ہوتی ہے کہ وہاں تو آپ کا کوئی سیکیورٹی جوان تھا ہی نہیں، وہ جگہ تو ہماری ہے۔ اس طرح وہ ایسی جگہوں کو بفر زون بنا دیتا ہے اور پھر اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ کی صدارت میں ہونے والے ڈائریکٹر جنرلز آف پولیس کے اجلاس میں پیش کی جانے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر ہماری افواج پوری طرح نگرانی نہیں رکھ پا رہی ہیں۔ ایل اے سی کے قریب کچھ علاقوں میں صورتِ حال زیادہ نازک ہے۔ لداخ میں ایل اے سی پر بھارت نے 65 پیٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26 پوائنٹس گنوا دیے ہیں۔
بھارت اور چین کی عسکری طاقت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کی طاقت بہت کم ہے۔ سات نئی بٹالین بنا دینے سے کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ چین کے پاس پانچ تھئیٹر کمانڈ ہیں جب کہ بھارت کے پاس صرف ایک ہے جب کہ امریکہ اور چین کے پا س کئی تھئیٹر کمانڈ ہیں۔بھارت میں صرف ایک تھئیٹر کمانڈ قائم کیا گیا ہے اور وہ بھی 2003 میں۔ اسے انڈمان نکوبار میں تیار کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بھی جو کہ قوم پرستی کی بہت بات کرتی ہے، اسے ابھی تک قائم نہیں کیا۔
چین کا ویسٹرن کمانڈ ایل اے سی کی نگرانی کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گلوان میں ہونے والی جھڑپ کے بعد یہ کمانڈ زیادہ سرگرم ہو گیا ہے۔ چین نے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کی ہے۔ تبت میں چین کے 10 ایئرپورٹ ہیں جو سویلین اور عسکری دونوں مقاصد کے تحت تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 30 ایئرپورٹ زیر تعمیر ہیں۔ دو تین سال سے ہائی اسپیڈ ٹرین کی خدمات بھی شروع کی گئی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے فروغ سے چین کے لیے متنازع علاقے میں کہیں بھی رسد پہنچانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے سیٹلائٹ اور روبوٹ کے ذریعے بھی نگرانی شروع کر دی ہے۔
دوسری طرف اتراکھنڈ سے لداخ تک جتنے بھی ایئر پورٹس ہیں وہ چینی ایئرپورٹس کی مانند معیاری نہیں ہے جس کی وجہ سے بھارت کے لیے رسد پہنچانا بہت آسان نہیں ہے۔ جو سات بٹالینز بنائی جائیں گی اس سے وہاں نگرانی کرنے و الے جوانوں کو اخلاقی طاقت ملے گی۔ لیکن اس سے چین کی تیاری کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔

Exit mobile version