بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ایک مفلوک الحال مزدوری کی تلاش میںکہیںجارہا تھا کہ ایک بزرگ کو زخمی حالت میں دیکھ کر اسے بڑا ترس آیا اس نے بزرگ کا زخم صاف کیا ،پانی پلایا اور اپنے پاس موجود روکھی سوکھی روٹی کھلائی اس خدمت سے وہ بزرگ بہت خوش ہوئے اس کی نیکی کی تعریف کی پھر مفلوک الحال کے حالات سنے ۔ بزرگ نے خوش ہوکر اسے ایک عجیب و غریب پتھر تحفہ میں دیدیا ۔یہ کیاہے؟ مفلوک الحال نے دریافت کیا ” یہ پارس پتھر ہے بزرگ نے جواب دیا تمہاری نیکی کا انعام ۔ انسان کی خدمت کا صلہ۔یہ پتھرجس چیزکوبھی چھولے وہ سونے کی بن جائے گی یوں مفلوک الحال بہت امیر بن گیا اور اس دولت سے کم وسائل رکھنے والوںکی خدمت کرنے لگا ۔یہ کہانی جب بھی یاد آتی سوچ میں گم ہو جاتا کہ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہوگا وہ جس چیزکو چاہے سونے جیسی بنا سکتا تھا۔پھر خیال آتا وہ بزرگ کیا چیز تھا جس نے پارس پتھر جیسی چیز تحفتاً دیدی۔پھر سو چاکیا کوئی انسان بھی پارس جیساہو سکتاہے وہ جس کو بھی چھو لے سونابن جائے۔ پاسے کا سونا۔۔دل نے کہا ایسے کئی انسان تو آج بھی ہمارے اردگر موجودہیں اورہم انہیں جانتے بھی ہیں۔ شاید انہیں خود بھی معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پارس جیسی خوبیوں سے نواز رکھاہے اور وہ جسے چاہیں سچا،سچا اور کھرا سونا بنا ڈالیں پاکستان کے قومی رہنمائوں پر نظردوڑائی جائے تو محسوس ہوگاکہ ذوالفقار علی بھٹو میاں نواز شریف اور عمران خان تین شخصیات ایسی ہیںجن کی شخصیت کااعجاز پارس کی مانندہے انہوں نے سیاست اور اندازِ سیاست کو بدل کر رکھ دیادونوں کی آمد تہلکہ خیزتھی اسے سیاسی بھونچال بھی کہا جا سکتاہے تینوں قومی رہنمائوں میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرورہے لیکن کئی قدریں مشترک بھی ۔۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوںنے اپنے دور ِ اقتدار میں جو چاہا وہی کیاجسے پسندکیا اسے پارٹی ٹکٹ دیا جسے چاہایک جنبش فارغ کردیا حتی ٰ کہ اپنے وقت کے بڑے قدآور سیاستدانوںکو گھر بٹھادیاکہ بیٹھے رہو تصور ِ جاناں کئے ہوئے ملکی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹوایسی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے کہ عوام ان کے گردکھینچے چلے آئے انہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیاکم و بیش ایک دہائی تک عوام ،سیاست اور جمہوریت پر ان کا جادو سرچڑھ کر بولتا رہابلکہ ان کے بعددو مرتبہ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ٍ اعظم اور ایک مرتبہ داماد آصف علی زرداری صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز رہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی آئندہ وزیر اعظم کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں قومی سیاست کے دوسرے طلسماتی کردار میاں نواز شریف ہیں جن پر ”آیا۔ اور چھا گیا”کا مقولہ بالکل صادق آتاہے انہیں کئی اعزازات حاصل ہیں میاں نواز شریف جب میدان ِ سیاست میں آئے اس وقت تک پنجابی وزیر ِ اعظم کا سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی فہم و فراست اور سیاسی حکمت ِ عملی نے ناممکن کو ممکن کردکھایا کہا جاتاہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردار ہے جو بھی عوامل ہوںبہرحال اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو بھی جاتاہے کہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے پنجابی وزیرِ اعظم بنے انہیں یہ بھی اعزازہے کہ تیسری بار وزیر ِ اعظم بننے والے وہ پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں۔ میاں نوا زشریف بلا شبہ مقبولیت کی اس معراج پر تھے کہ ان کا نام جس سے جڑ جائے معتبرہو جاتا ہے ۔پارس ہونے کے معانی بھی یہی ہیں لیکن شاید انہیں اپنی اس خوبی کا احساس ہی نہیں ہوا یا پھروہ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نومولود پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔بڑے بڑے چہروں کے مقابلے پرPPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا ذوالفقار علی بھٹو کی پارس جیسی شخصیت نے غیر معروف امیدواروں کو سونا بنا ڈالا اصلی اور کھرا GOLD ۔ امیدواروںکی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہوگیا معتبر ہو گیا ۔ انکے بعدقدرت نے میاں نواز شریف کو بھی اسی خوبی سے نوازا وہ ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھرے آپ تیسری مرتبہ وزارت ِ عظمیٰ پر فائز رہے 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے مقابلے میں نامی گرامی سیاستدان ہار گئے نااہلی کے باوجود میاں نواز شریف آج بھی سیاسی طورپر مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متعدد ایسے امیدوار بھی اسمبلیوںمیں پہنچ گئے ہیں جو عام حالات میں شاید کونسلر بھی بننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور حامدناصرچٹھہ ،ہمایوں اختر خان ، امیر مقام ، اقبال ظفر جھگڑا ، چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری امیر حسین ، لیاقت بلوچ،ممتاز بھٹو،عابدہ حسین، فخر امام ، فیصل صالح حیات ، شیرپائو جیسے رہنما موجودہ پارلیمنٹ سے باہر ہو گئے۔ لاہورمیں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے بیشتر سیاستدانوں کے ساتھ شیر کا نشان ہٹا دیا جائے تو یقین جانیۓ لوگ انہیں بلی ماننے سے بھی انکارکردیں گے ۔ بھٹوکے بعد میاں نواز شریف اور عمران خان ایسے قومی رہنما ہیں جنہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیا یعنی امیدواروںکی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے لیکن میاںنوازشریف کی چوتھی بار وزیر ِ اعظم بننے کی خواہش حسرت میں بدل گئی ہے بہرحال ایسے لیڈروںسے بھی لوگ مایوس ہونے لگیںتواسے غورکرنا چاہیے کہ ان میں کیا کیا خامیاں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتاہے جس لیڈر پر اللہ کا اتنا کرم ہوکہ اس کا نام ہی کامیابی کی ضمانت بن جائے ۔وہ جس کو اپنا بنالے دنیا اسی کی دیوانی ہو جائے اور جس کا نام جس کے ساتھ جڑ جائے وہی نام معتبرہو جائے تواسی لئے آج عمران خان پاکستان کی سیاست کا محور و مرکز بنے ہوئے ہیں بلاشبہ وہ آج اس مقام پر ہیں جس کی خواہش کرتے کرتے سیاستدان اس دنیا سے چلے جاتے ہیں یہ مقام انہوںنے اپنی انتھک محنت، کوشش اور سماجی ورک سے بنایا ہے کہاجاتاہے اس کے پیچھے ان کی 22 سالہ جدو جہد شامل ہے پاکستان میں قیادت کے فقدان اور2سال سے زیادہ جیل میں ہونے کے باوجود آج دور ِ حاضرکے سیاستذانوں میں وہ مقبولیت کی معراج پر ہیں وہ پہلے پاکستانی قومی رہنما ہیں جو بیک وقت 5مقامات سے الیکشن میں تاریخی انداز میں کامیاب ہوئے ان پر مختلف نوعیت کے سینکڑوں مقدمات درج ہیں ان کے کئی مخالف سیاستدان فضل الرحمن،شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ آج تلک حیران پریشان ہیں کہ وہ کیسے ہار گئے ۔ملک کے واحد اپوزیشن لیڈر ہونے کی وجہ سے تحریک ِ انصاف کے بانی عمر ان خان کی مقبولیت بڑھنے کا امکان ہے ان کے حامیوںکا کہناہے عمران خان نے عالمی سطح پر حضور ِ اکرم ۖ کی حرمت کا مسئلہ اجاگر کر کے دنیا کو بتادیاہے کہ نبی مکرم ۖ کی محبت کے بغیر مسلمانوںکا ایمان ادھورا ہے ۔ موصوف کے کروڑوںحامیوںکاموقفہے عمران خان کانام جس کے ساتھ جڑ جائے وہ معتبر ہو جاتاہے ۔بلاشبہ مقبولیت، عزت ، حکومت سب اللہ کی دین ہے وہ جسے چاہے عزت سے نوازے۔
سیاست کے طلسماتی کردار
