پاکستان میں جمہوریت کے خدوخال نہ صرف سیاسی بصیرت بلکہ اخلاقی معیار اور قانونی شفافیت سے جڑے ہوتے ہیں۔ قانون کی بالا دستی کسی بھی قوم کی سیاسی، جغرافیائی، معاشرتی و معاشی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ نظام عدل دنیا میں تعمیر و ترقی کے نئے باب رقم کرتا ہے۔ جب کوئی شخص عوامی عہدے پر فائز ہوتا ہے، خاص طور پر وزیراعلی جیسے اعلی منصب پر، تو عوام کی یہ توقع بالکل فطری ہوتی ہے کہ وہ شخص بے داغ کردار، قانون کا پابند، اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ لیکن خیبر پختونخوا کے حالیہ سیاسی منظرنامے میں ایک ایسا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے جو ہماری جمہوریت کے چہرے پر ایک سنگین سوالیہ نشان بن چکا ہے: کیا ایک ایسے شخص کو صوبے کی قیادت سونپی جا سکتی ہے جو خود ایک ایف آئی آر میں نامزد ہو؟یہ سوال نئے وزیر اعلی خیبر پختونخواہ سہیل آفریدی کی نامزدگی کے تناظر میں زیادہ سنگین ہو جاتا ہے، جن کے خلاف ایک پولیس ایف آئی آر میں تین اہم دفعات شامل ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔یہ صرف قانونی دفعات نہیں، بلکہ ان کے ممکنہ کردار اور سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ایک ایسا طرزعمل جو کسی عام شہری کے لیے بھی قابل گرفت ہوتا ہے،
چہ جائیکہ ایک وزیر اعلی کے لیے۔یہ درست ہے کہ قانون میں ملزم کو اس وقت تک بیگناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک جرم ثابت نہ ہو۔ مگر یہ قانونی اصول عوامی قیادت کے لیے کافی نہیں۔ قیادت صرف قانونی اہلیت کا نہیں، بلکہ اخلاقی ساکھ کا بھی نام ہے۔ جب کوئی شخص دفعہ 149 کے تحت غیر قانونی اجتماع کا حصہ ہو، دفعہ 188 کے تحت ریاستی حکم عدولی کا مرتکب ہو، اور دفعہ 341کے تحت "شہریوں کو جبرا روکنے” میں ملوث ہو، تو یہ افعال ایک عام احتجاج یا سیاسی سرگرمی سے کہیں آگے جا کر "منظم بدنظمی” کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ دفعات صرف "کاغذی الزام” نہیں بلکہ ایک ایسے رویہ اور مزاج کی نمائندگی کرتی ہیں جو آئین اور ریاستی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا ایک
ایسا شخص جو خود قانون توڑنے کے مقدمات میں نامزد ہو، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر جانبداری، دیانتداری اور آئینی وفاداری کی تلقین کر سکتا ہے؟ یہ سوال صرف خیالی نہیں بلکہ عملی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پولیس، بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر انتظامی ادارے ایسے وزیراعلی سے احکامات کیسے لیں گے جس پر خود "ریاستی حکم عدولی” کا الزام ہے.یہ صورتحال انتظامی اعتبار سے بھی تباہ کن ہو سکتی ہے اور آئینی اعتبار سے بھی خطرناک۔اگر ایک نامزد شخص ریاستی اداروں کا سربراہ بن جائے، تو پھر قانون کی بالادستی کا نعرہ کھوکھلا ہو جاتا ہے اور پھر ایسا شخص کہ جسکے بارے میں عمومی تاثر پایا جاتا ہو کہ وہ دہشت گردوں کا سہولت کار ہے، تو پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ بن جاتا ہے۔یہاں ایک اور تکلیف دہ پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ ہے سیاسی جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی۔ جس جماعت نے سہیل آفریدی کو نامزد کیا، اس نے نہ تو عوام کو اعتماد میں لیا، نہ ہی ایف آئی آر کے حوالے سے کوئی شفاف وضاحت دی۔کیا
جماعتوں کے نزدیک "جیتنے والا امیدوار” ہی واحد معیار ہے، چاہے اس کا کردار کتنا ہی مشکوک کیوں نہ ہو؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے شعلے کو بجھانے کے لئے آگ کے ہاتھ میں دیا پکڑا دیا جائے۔اگر ایسا ہے تو یہ جمہوری زوال کی انتہا ہے۔سیاسی جماعتیں عوامی اعتماد کی حامل ادارے ہیں اور جب وہ خود ایسے افراد کو قیادت دیتی ہیں جن پر قانون شکنی کے الزامات ہوں، تو وہ عوام کو ایک واضح پیغام دیتی ہیں:کردار نہیں، کرسی اہم ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں قانون کی حکمرانی پہلے ہی کمزور ہے، وہاں ایسے فیصلے عوام کے اعتماد کو مزید مجروح کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی قیادت ایسا شخص کرے جو نہ صرف قانونی اعتبار سے صاف ہو، بلکہ اخلاقی طور پر بھی اعلی ہو۔میڈیا کا ایک بڑا حصہ، سیاسی تجزیہ کار، حتی کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس معاملے پر خاموش ہیں، جو کہ تشویش ناک ہے۔ ایسے کیسز میں خاموشی، جرم کی شراکت داری کے مترادف بن جاتی ہے۔ اگر آج اس پر آواز بلند نہ کی گئی تو کل ایسے ہی اور کئی افراد، جو قانون توڑ کر سیاست میں آئیں گے، نظام کو مزید کھوکھلا کر دیں گے۔اگر واقعی سہیل آفریدی پر ان دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے تو ایک آزاد اور غیر جانبدار تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جائے، اور تحقیقات مکمل ہونے تک انہیں اپنے عہدے سے عبوری طور پر الگ ہو جانا چاہیے۔ یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی کا واحد راستہ بھی ہے۔سہیل آفریدی کے خلاف موجودہ ریکارڈ صرف کسی سیاسی حریف کی افواہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے عدالتی دستاویزات میں درج ہے۔ ایسے میں اگر ان کی نامزدگی برقرار رہتی ہے تو یہ صرف ایک صوبائی نہیں بلکہ قومی شرمندگی کا باعث بنے گی۔ سہیل آفریدی کا مستقبل دو راستوں پر کھڑا ہے ایک طرف وہ وزیراعلی کی کرسی ہے، اور دوسری طرف قانون کا کٹہرہ۔ یہ فیصلہ انہیں یا ان کی جماعت کو نہیں، بلکہ اس قوم کو کرنا ہے جو اپنے بچوں کو یہ سکھاتی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔اگر ہم واقعی ایک بہتر پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں یہ فیصلہ آج کرنا ہوگاکہ کیا ایک ملزم وزیراعلی ہو سکتا ہے؟ یا قانون کی بالادستی کو فوقیت حاصل ہے؟یہ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک جمہوری قوم کی آواز ہے وہ آواز جو انصاف، شفافیت، اور دیانت پر مبنی قیادت چاہتی ہے۔
سیاست یانظام عدل کا تمسخر
