جس کیساتھ نیکی کرو، اسکے شر سے بچو( حضرت علی کرم اللہ وجہہ)کبھی کبھار انسان سوچتا ہے کہ کیا سچ میں تعلق، خلوص، وفا، اور ایثار جیسے الفاظ اب لغت میں رہ گئے ہیں؟ سیاست میں، دوستی میں، خاندانوں میں ہر طرف مفاد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا:دل وہی جو دکھ میں کام آئے، ورنہ ہجوم میں ہر چہرہ مسکراہٹ بکھیرتا ہے۔مگر سچ یہی ہے کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو چہرے بدل جاتے ہیں، آوازیں خاموش ہو جاتی ہیں، اور صرف احسان کی بے قدری باقی رہ جاتی ہے۔ یہ وہ کڑوی حقیقت ہے جسکا مشاہدہ آج ہمارے معاشرے میں عام ہو چکا ہے۔ انسان اپنے ذاتی فائدے کیلئے کس حد تک گر سکتا ہے، اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب وہ کسی کے احسانات کو فراموش کر کے اسے نقصان پہنچانے پر تل جائے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کے عمل کو سنوارتا نہیں۔یونس: 81
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خیانت اور بے وفائی نہ صرف دنیاوی معاملات میں نقصان دہ ہے بلکہ روحانی طور پر بھی انسان کے عمل کو برباد کر دیتی ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ بے وفائی کرتا ہے، خاص طور پر اس کے ساتھ جس نے اس پر احسان کیا ہو، تو وہ درحقیقت اپنی آخرت کو بھی دا پر لگا دیتا ہے۔میں نے عمران خان کو قریب سے دیکھا۔ اس کیساتھ وقت گزارا، جلسے کیے، دشمنوں کا سامنا کیا۔ وہ ایک خواب کا نام تھا جو جاگا نہیں بلکہ جگانے آیا۔ وہ کہتا تھا:مجھے اقتدار نہیں، تبدیلی چاہیے۔ میں اس ملک کو آزاد اور باوقار دیکھنا چاہتا ہوں۔لیکن اس کے گرد وہ لوگ جمع ہو گئے جو اقتدار کے بھوکے، نام کے بھکاری، اور نظریے سے نابلد تھے۔ وہ خان کے کندھے پر چڑھ کر خود کو آسمان تک لے گئے، لیکن جیسے ہی طوفان آیا، سب زمین میں دفن ہو گئے۔ یہ کہانی صرف عمران خان کی نہیں بلکہ ہر اس نظریاتی لیڈر کی ہے جس نے مفاد پرستوں پر اعتبار کیا۔ ایسے لوگ کسی بھی تحریک یا مقصد کیلئے زہر ثابت ہوتے ہیں۔
مفاد پرستی: سیاسی کلچر کا زہرسیاست میں نظریہ اب فقط جلسے کی تقریر میں بکتا ہے، اصل میں ہر کسی کو صرف سیٹ چاہیے، صرف وزارت۔ اور جب یہ چھن جائے تویادِ ماضی عذاب ہے یارب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا، والی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔عثمان بزدار، پرویز خٹک یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں عمران خان نے اندھی عقیدت سے نوازا لیکن جب خان گرفتار ہوا، ان کے موبائل بند ہو گئے، ای میل غائب، اور دل مردہ ہو گئے۔ اور وہ جو خان کیلئے قدم بڑھاؤ عمران خان،ہم تمہارے ساتھ ہیں ،روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے کے نعرے لگاتے تھے، وہی اب اس کے خلاف عدالتوں میں بیٹھے گواہ بنے ہوئے ہیں نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ دراصل عمران خان کو بتا رہا تھا میں کلفٹن کے ساحلوں کی سیر پر ہوں آپ اس سٹاپ کی گاڑی پکڑیں ۔یہ منافقت کی انتہا ہے، جہاں ذاتی مفاد اور بقا کیلئے اصولوں اور تعلقات کو پامال کر دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ بخاری و مسلم،یہ حدیث ان لوگوں کی بہترین عکاسی کرتی ہے جو بظاہر ساتھ ہوتے ہیں مگر مشکل وقت میں پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ ان کا تعلق صرف اپنی ذات کے فائدے سے ہوتا ہے۔حضرت علی کا قول: ابدی حقیقت جسکے ساتھ نیکی کرو، اس کے شر سے بچو۔
یہ صرف قول نہیں، ایک کامل مشورہ ہے۔ ہم احسان کر کے سوچتے ہیں کہ ہمیں محبت ملے گی، لیکن بعض لوگ احسان کو بوجھ سمجھتے ہیں، اور جب ان پر بوجھ لگنے لگے تو وہ احسان کرنے والے کو ہی گرا دیتے ہیں۔ یہی کچھ عمران خان کیساتھ ہوا۔ اس نے اپنے ساتھ چلنے والوں کو زمین سے اٹھا کر تخت پر بٹھایا، اور انہی نے اس کی بنیادیں ہلانے میں کردار ادا کیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کچھ لوگ نیکی کو کمزوری سمجھتے ہیں اور احسان کو اپنی سیڑھی بنا کر اوپر چڑھتے ہیں، پھر اسی سیڑھی کو گرا دیتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالی ٰاحسان کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ فرماتا ہے کہ احسان کرنے والوں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے۔دفعہ 64: جب احسان کے بدلے گواہی ملی ان غداروں کے لیے کیا کہا جائے؟جنہیں ہم نے دیا اعتبارِ کامل، وہی نکلے فسانہ ساز اکثر دفعہ 64 کے تحت گواہی دینے والے وہ چہرے ہیں جنہیں صرف ضمیر کے آئینے میں دیکھنا باقی ہے۔ کل جو خان کیساتھ کھڑے تھے، آج اسکے خلاف کھڑے ہیں صرف اسلئے کہ ان کا سیاسی مستقبل سلامت رہے ۔ کیا سیاست واقعی اتنی بے غیرت ہو چکی ہے؟ کیا اقتدار کیلئے ہر حد پار کرنا جائز ہو گیا ہے؟ یہ سوالات آج ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف عمران خان کے ساتھ پیش آیا ہے بلکہ یہ ایک عمومی سیاسی رواج بن گیا ہے، جہاں وفاداری نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی بقا اہم ہو جاتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ نہیں۔پاکستان بننے سے لے کر آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔
لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی، اور اگلے دن کابینہ نے نئے وزیراعظم کی نامزدگی شروع کر دی۔ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں تو ان کی پارٹی کے لوگ اقتدار سنبھالنے میں لگ گئے۔ نواز شریف جلا وطن ہوئے تو ان کے ساتھی جنرل مشرف کے کیمپ میں جا بیٹھے اور آج عمران خان ایک عوامی لیڈر، ایک نظریاتی جنگجو جیل میں ہے، تو اس کے اپنے بنائے ہوئے وزرا، ساتھی، اور سیاسی کزن کہیں نظر نہیں آ رہے۔ یہ ایک دائمی چکر ہے جس نے ہماری سیاسی تاریخ کو داغدار کیا ہے۔ جب تک اس چکر کو توڑا نہیں جائے گا، ہم ایک حقیقی جمہوری اور نظریاتی ملک نہیں بن سکتے۔ہمیں کیا کرنا ہے؟ کہاں کھڑے ہونا ہے؟اگر ہم نے ان موقع پرستوں کو پہچان کر رد نہ کیا، تو آئندہ بھی یہی غدار ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر ہماری تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ قوم ایک فیصلہ کرے: نظریہ چاہیے یا مفاد؟ عزت چاہیے یا اقتدار؟ خان جیسے لیڈر کا ساتھ دینا ہے یا عثمان بزدار جیسے خاموش تماشائیوں کو پھر سے مینڈیٹ دینا ہے؟ یہ فیصلہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہر پاکستانی کو اپنے ضمیر سے سوال کرنا ہوگا کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے، کیا وہ اصولوں پر مبنی سیاست کا حامی ہے یا مفاد پرستی کے اس دلدل کا حصہ بننا چاہتا ہے؟سیاست کو کاروبار سے نکال کر نظریہ بنانا ہوگا۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست عبادت ہوتی ہے، اگر وہ خدمت کے جذبے سے ہو۔ لیکن اگر وہ صرف کرسی، فائدے، اور نوکریاں بانٹنے کا ذریعہ ہو تو وہ لعنت ہے، جو معاشروں کو کھا جاتی ہے۔ ہمیں ایسے کارکن، رہنما اور دوست پیدا کرنے ہوں گے جو صرف اقتدار کے دنوںکے نہیں بلکہ مشکل وقت کے ساتھی ہوں۔ ایسے لوگ جو اپنے نظریے اور قائد کیساتھ وفادار رہیں، چاہے حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دین خیر خواہی کا نام ہے۔مسلم ،یہ خیر خواہی صرف اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے ملک اور قوم کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ ایک سچے سیاسی کارکن اور رہنما کی پہچان یہی ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہو۔
اور آخر میںکیا ہم اس قوم کو بچا سکتے ہیں؟ کیا ہم نوجوانوں کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ سیاست، تجارت نہیں؟ کیا ہم ان مفاد پرستوں کو بے نقاب کر کے ان کی جگہ وفاداروں کو دے سکتے ہیں؟ یہی ہماری ذمہ داری ہے۔کیونکہ مفاد کا قیدی، تعلق کی خوشبو سے محروم ہوتا ہے”اور”جو شخص تعلق کو نبھاتا ہے، وہ وقت کے ہر طوفان میں وفا کا چراغ بن کر جلتا ہے ۔
شر سے بچیں
