۹ نومبرکو مصور پاکستان علامہ شیخ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ کے ۷۴ واں یوم پیدائش پر پاکستان میں عام تعطیل تھی۔ اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر پاکستان قائد اعظمؒ نے حاصل کیا تھا۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچوسنبھال کے
یہ ہم نظم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ اس نظم کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے جو ہر پاکستانی کو یاد ہے اور یاد ر ہنی بھی چاہیے ویسے بھی بزرگ کہتے ہیں یہ داستان اس وقت سے شروع ہو گئی تھی جب برصغیر کے اندر پہلا شخص مسلمان ہوا تھا ۔ اب اس کوہزار سال گزر گئے ہیں ۔وقت گزرتا گیا برصغیر پرسازش سے انگریز قابض ہو گئے تھے۔ انگریزوں سے نجات کے لئے۷۵۸۱ءکی جنگِ آزادی مسلمانوں نے شروع کی تھی۔ اس کو دبانے میں انگریزوں کے خود کاشتہ پودے قادیانیت نے بھی مدد کی تھی جس کا ذکر خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے ایک خط بنام ملکہ ہندوستان و انگلستان میں رقم طراز ہے کہ” میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے ۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی میں انگریز حکومت کی مدد پچاس گھوڑوںبمع سواروں سے کی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ جنگ کا اگر کچھ اور طول ہو تو مےرے والد سومزید گھوڑوںبمع سواروں کی بھی مدد کےلئے تیار تھے“ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھیناتھا جس وجہ سے انہیں ہر طرح سے کمزور کرنا ان کی پالیسی تھی اس سازش میں ہندو ان کے ساتھ تھے ۔جنگ آزادی کے بعد تو انگریزوں نے جو مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا وہ ویسا ہے جو تاریخ انسانی میں ظالم آقا مظلوم غلاموں پر کرتے آئے ہیں۔ سزائیں،قید و بند ، توپوں کے سامنے کھڑا کر کے زندہ اُڑا دینا ، پھانسیاں،کالا پانی کی سزائیں، جائیدادوں سے بے دخلی اور برصغیر میں مسلم تہذیب کا خاتمہ وغیرہ ۔ اسی ظلم و ستم کی چکی کو چلتے محسوس کرتے ہوئے سرسید احمد خان نے” اسباب بغاوت ہند“ کتاب تحریر کی تھی تاکہ مسلمانوں پر انگریز کے ظلم و ستم کچھ کم کیے جا سکیں۔ایک وقت مسلمانوں اور ہندوﺅں نے ملکر آزادی کی جد و جہد شروع کی جو کافی سالوں تک جاری رہی۔ اس سے انگریز وںپرآزادی کےلئے دباﺅ پڑتا رہا اس دوران ہنددﺅں کے دماغ میں عددی اکثریت کا بھوت سوار ہو گیا جو مختلف موقعوں پر ظاہر ہوتا رہا۔ برصغیر کے عوام کے درمیان رابطے کی زبان اُردو تھی جس میں تحریک آزادی ہندوستان پڑے زور شور سے جاری تھی مگر مکار ہندو نے اس زمانے میںاُردو کے ساتھ دشمنی کی اور مردہ زبان سنسکرت کو زندہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس سازش کو سر سید احمد خان نے بھانپ لیا اور اُردو کو بچانے کی کوششیں شروع کیں جو تاریخ میں درج ہیں ۔اس طرح سر سید احمد خان نے اپنے آپ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کشتی کو پار لگانے کی انگنت کوششیں کیں جو تاریخِ پاکستان کا ایک درخشندہ باب ہے۔ قائد اعظمؒ بھی پہلے آزادی کی مشترکہ جد جہد کے قائل تھے اور کانگریس کے شانے بشانے جنگ آزادی کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے جو تاریخ برصغیر میں محفوظ ہیں قائد ؒ کو اللہ نے عظیم صلاحیتوں سے نوازا تھا جس کی تعریف خود ہمارے آقا انگریز بھی گائے بگائے کرتے تھے کچھ انصاف پسند ہندو بھی قائد اعظم کی سچائی اور جرا¿ت کا برملا اظہار کرتے تھے اسی سلسلے کی کڑی کچھ دنوںقبل ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ نے اپنے کتاب میں قائد اعظم ؒ کی سچائی اور جرا¿ت اور جنگ آزادی میں اختیار کردہ نکتہ نظر کو بہادری سے پیش کیا اور کانگریس کی پالیسی پر تنقید کی اس حقیقت کو بیان کرنے پر ہندوستان کے معاشرے میں تنقید اور ناپسندیدہ شخص کے کے طعنے برداشت کرنے پڑے اور اس کی پارٹی نے اسے اسی پادا ش میں پارٹی سے نکال دیا ۔ کانگریس کے مقابلے میں۶۰۹۱ءمیں بنگال میں ایک سیاسی پارٹی مسلم لیگ جو پاکستان کی بانی پارٹی ہے کی بنیاد رکھی گئی ۔مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کی کوششوں پر ہنددﺅں نے مخالفت کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ مسلمان دوحصوں میں بٹ گئے ایک حصہ کانگریس کے ساتھ تھا جو کانگریسی علما کہلائے اور ایک بہت بڑا حصہ قائدؒ کے ساتھ تھا جس نے مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی کمانڈ میں تحریک آزادی پاکستان میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا اور پاکستان کی کشتی کو منجدار سے نکالنے میں قائد اعظم ؒ کی مدد کی۔ تحریک آزادی کے دوران اپنی عددی برتری کو قائم رکھنے کےلئے ہنددﺅں نے برصغیر میں قومیت کی بحث چھیڑ دی کہ ہندوستانی ایک قوم ہیں اور قومیں اُوتار یعنی وطن سے بنتی ہیں اس نعرے میں حقیقتاً کشش بھی تھی کیونکہ دنیا میں یہی چلن چل رہا تھا اور ا ب بھی چل رہا ہے کہ جس ملک میں جو بھی رہتا ہے وہ اس ملک کی قوم ہے اس لیے ہندوستان کے سارے لوگ ایک قوم ہیں ۔ مسلم لیگ اس کا توڑ صحےح طریقے نہیں کر پا رہی تھی کہ اس قصے میں اللہ نے مولانا مودودیؒ کو کھڑا کر دیا۔مولاناؒ نے اپنی تحریروں میں اس مسئلہ قومیت کو مسلم اور غیر مسلم قومیت کاموازانہ کر کے خوب اُچھالا جو کتابی شکل میں اب بھی موجود ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغر ب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول عاشمی
اس شعر کی مولانا ؒ نے اپنی تحریروں میںخوب تشریع کی اور قومِ رسول ہاشمی کو ثابت کیا۔ مسلمانوں میں اس تشریح کو قبول عام ہوا۔مسلم لیگ نے ان تحریروں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سارے برصغیر میں پھیلایا جس سے تحریک پاکستان کو جلا ملی۔ اس طرح اس کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں تاریخ مولانا مودودی ؒکو بھی یاد رکھے گی۔ قائد اعظم ؒنے اس کاصلہ مولانا کو یہ دیا کہ پاکستان بنتے ہی ریڈیو پاکستان سے مولانا ؒ کو اسلامی نظام کیسے قائم ہوتا ہے بیان کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ قائد اعظم ؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور تدبیر کے سامنے پاکستان دشمنوں کی ایک بھی نہ چلی اور دنیا کے نقشے پراسلامی جمہوریہ پاکستان وجود پذیر ہو گیا ۔ اس میں علامہ اقبالؒ نے قائد اعظمؒ کی برپور مدد کی ؒعلامہ اقبال ؒبھی شروع میں برصغیر کی آزادی کےلئے ہندو مسلم مشترکہ جد و جہد کے قائل تھے اور اپنی نظموں میںا س کا اظہار بھی کیاکرتے تھے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی ،یہ گلستان ہمارا
مگر قائد ؒ کی طرح علامہ اقبالؒ نے بھی ہنددﺅں کی سازش کو بھاپ لیا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی سوچ اور شاعری سے تحریک آزادی پاکستان کو وہ جلا بخشی کہ جس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔واقعی پاکستان کی کشتی کو پار لگانے میں علامہ اقبال ؒ کی جد و جہد رنگ لائی اور پاکستان دنیا کے نقشے پر اس وقت کی مسلم دنیا کی سب سے بڑی ریاست قائم ہو گئی۔ آج علامہ اقبالؒ ہم میں موجود نہیں مگر پاکستان مسلم دنیابلکہ تمام اقوام اُس کو یاد کرتیں ہیں کیونکہ علامہؒ ایک آفاقی شاعر تھے۔ ۔مسلمانوں کے دلوں کو گرمانےوالے، شاعر اسلام ،شاعر مشرق، فلسفی شاعراور آفاقی شاعر کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی آج وہ ہم میں نہیں ہیں ان کے خوابوں کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم دائم ہے وہ جس کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے تھے اب وہ اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتوں ایٹمی قوت ہے جو دشمنوں کی مقامی اور بین الاقوامی سازشوں کی باوجود اپنے بنانے والوں خواہش کے مطابق قرارداد پاکستان کی روشنی میں اپنے مسلم تشخص پرقائم و دائم ہے۔مسلمانان پاکستان اس کو سنبھالنے کے ذمہ دار ہیں انشاءاللہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان قائم و دائم رہےگا۔