Site icon Daily Pakistan

عیدالفطر مسلمانوں کا پُروقار سنجیدہ تہوار!

عیدالفطر رمضان کے ۰۳ روزوں کے بعد شکرانے کے طور پر مسلمان مناتے ہیں۔ اس موقعے پر عید گاہوں اور شہر کی بڑی بڑی مساجد میں مسلمان۲ رکعت نماز ادا کرتے ہیں ۔اپنے غریب مسلمان بھائیوں میں فطرانے کے پیسے تقسیم کرتے ہیںتاکہ وہ اور ان کے بچے بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔رمضان میں مسلمان اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اپنے گناہوں کو معاف کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں طاق راتوں میں لیلة القدر کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ روزوں کا ثواب میں خود دوں گا باقی نیکیوں کے لیے اجر تو ۰۷ گنا تک کہا گیا ہے مگر رمضان میں اللہ نے اَجر خود دینے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تو بے حساب دیتا ہے پھر بھی اس کے خزانے میں کمی نہیں ہوتی اِس لیے مسلمان رمضان میں خوب دل لگا کر عبادت کرتے ہیں۔ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں زیادہ سے زیاد ہ نوافل ادا کرتے ہیں راتوں کو جاگ کر تہجد پڑھتے ہیں نفلی عبادت تراویح کے لیے مساجد ماشاءاللہ بھر جاتی ہیں جس میں قرآن کے حافظ صاحبان قرآن شریف سناتے ہیں انفرادی طور پر ہر مسلمان قرآن شریف کی تلاوت کرتاہے مساجد میں قرآن کی تلاوت کی آواز سن کر بے ساختہ دل اللہ کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ بچے،جوان،بوڑھے عورتیں قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں ہر طرف نیکیوں کی ایک بہار ہوتی ہے ہر سال یہ ایک قسم کا تربیتی کورس جو ہر رمضان کے مہینے میں ہوتا ہے پوری دنیا میں مسلمانوں کی بستیوں میں نیکیوں کی بہار کا موسم ہوتا ہے شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ عذا ب ِجہنم سے نجات کا ہے ۔ اسلام کے جتنے بھی خوشی کے تہوار ہوتے ہیں وہ ایک پُرقار سنجیدہ اُمتِ مسلمہ کے شا یان شان ہیں مسلمان اُس روز عید گاہوں اور شہر کی بڑی بڑی مساجد میں اکھٹے ہوتے ہیں دو رکعت نماز عیدالفطر ادا کرتے ہیں اللہ کے سامنے عاجزی سے گڑ گڑا کے دعائیں مانگتے ہیںکہ اے اللہ رمضان کے مقدس مہینے میں اگر عبادت میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو معاف کر دی جائے اے اللہ تو بڑا معاف کرنے والا ہے ایک دوسرے کوعیدالفطر کی مبارک باد دیتے ہیں روزوں کی مقبولیت کے لیے ایک دوسرے کو دعائیں دیتے ہیں نماز کے بعد ایک دوسرے سے گلے مل کر معاف کرنے کی درخواست کرتے ہیں، ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں اپنے اور رشتہ داروں کے بچوں میںعیدی تقسیم کرتے ہیں لذید قسم کی سویاں اور دل پسند کھانے کھاتے ہیں محبت،اخوت اور الفت کا موسم ہوتا ہے بچے، نوجوان،بوڑھے نئے کپڑے پہنتے ہیں ایک دوسرے میں تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے پوری اسلامی دنیا کے ملکوں میں امت ِمسلمہ کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ایک جیسا پُر وقار سنجیدہ عیدالفطر کا دن مناتے ہیں وہ امتِ مسلمہ جسے اللہ نے خیر امت بنایا ہے جو درمیانے راستے پر چلنے والی ہے اس امت کو فریضہ شہادتِ حق کے لیے اُٹھایا گیا ہے یہ دنیا کی دوسری قوموں پر شہادت کا فریضہ ادا کرے گی۔ یہ امت امر با المعروف و نہی المنکر پر عمل کرے گی یعنی نیکی کے کاموں میں تعاون اور بُرائی کے کاموں سے منع کرے گی اس لیے اس کے شایان شان یہ بات ہے کہ اس کے سارے تہوار پُرقار سنجیدہ ہوں جےسے عےدالفطر ہے۔ اس موقعے پر دوسر ے مذاہب کے تہواروں کی طرح کے غل غپاڑہ،آتش بازی ، شراب و کباب کی محفلیں اور غیر اخلاقی حرکتیں نہیں ہوتیں بلکہ امتِ مسلمہ عیدالفطرایک بارعب،پُروقار سنجیدہ طریقے سے مناتی ہے ۔ مسلمان عیدالفطر کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ اور شہر کی بڑی بڑی مساجد میں ایک راستے جاتے ہیں، واپس دوسرے راستے سے گھر آتے ہیںاس سے مسلمانوں کی شان شوکت اور طاقت کے مظہر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر زکوٰة کی ادائیگی فرض کی ہے جس مسلمان کے پاس مال ایک سال تک جمع رہے وہ اس مال سے ڈھائی فی صد زکوٰة ادا کرنے کا پابند ہے یہ ادائیگی مسلمان رمضا ن کے مہینے میں اپنے غریب بھائیوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ اور ان کے بچے بھی عیدالفطر کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں زکوٰة کی ۸ مدَات قائم کر دی ہیں ان مدَوں میں زکوٰة خرچ کی جاتی ہے( 1) فُقرا : زکوٰة فقےروں کے لےے جو تنگ دست ہوں۔ےہ وہ لوگ ہےں جو اپنی زندگی بڑی مشکل سے گزار رہے ہوں مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھےلاتے ہوں
(2)مساکےن :مساکےن وہ ہےں جو اپنی ضرورےات پوری نہےں کر سکتے۔ےہ بہت ہی تنگ دست لوگ ہےں جو اپنی ضرورےات پوری نہےں کر سکتے کمانے کے قابل ہوں مگر روزگار نہ ملتا ہو(3) عا ملےن علےہا :ےعنی زکوٰة کا مصرف زکوٰة وصول کرنے پر جو مامورہوں۔ اسلامی حکومت ان کو جو کچھ تنخواہ کی مد مےں دے (4) مو¾لفةالقلوب :۔ زکوٰة اُن کے لےے جن کی تالےف قلب مطلوب ہوںےعنی جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں ےا جنکی اسلام دشمنی کو کم کرنے مےں مدد کی ضرورت ہو۔
(5)فی الرً قاب : ۔اس سے مراد جو شخص غلام ہواسکو آ زاد کرانے مےں ےعنی غلاموں کی آزادی کے لےے زکوٰة کا استعمال جائز ہے۔آجکل جےل کے اندر قےدحقدار قےدےوں کی رہائی کیلئے زکوٰة استعمال کےا جا سکتی ہے۔
۶۔ الغارمےن :۔اس سے مراد جو لوگ قرضدار ہو ں مگر اپنا قرض ادا نہ کر سکتے ہوں ان کا قرض ادا کرنے کے لےے زکوة استعمال کی جا سکتی ہے ۷۔فی سبےل اللہ:۔اللہ کے دےن کو قائم کرنے کے لےے ےعنی جہاد کے لےے زکوٰة استعمال کی جا سکتی ہے کوئی شخص مال دار ہے مگر اللہ کے دےن کو قائم کرنے مےں لگا ہوا ہے اس کو بھی ز کوٰ ة دی جا سکتی ہے۔۸۔ ابنُ السّبےل :۔ اگر کوئی شخص مسافر ہے اور اسے پےسے کی ضرورت ہے اس کی زکوٰة مےں سے مدد کی جاسکتی ہے چاہے وہ اپنے ملک مےںما لدار ہی کےوں نہ ہو۔ فطرانے اور زکوٰة کی تقسیم کے ساتھ ساتھ سرمضان میں مال دار حضرت اور اسلامی این جی اوزغریبوں، مسافروں اور عام لوگوں کے لیے اجتماعی افطار ی کا اہتمام کرتی ہیں ۔مسلمان اپنے اپنے گھروں میں ایک دوسرے کو بُلا کر افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔ ان تمام عبادات کو ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ اب عید الفطر کی خوشیاں مناﺅ تم نے پورے رمضان کے مہینے میں اپنے رب کو راضی کرنے کی عام مہینوں سے زیادہ محنت کی ہے۔ زکوٰة مسلمانوں میں معاشی توازن کے لیے بہت ہی معاون ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ رسولاللہ نے فرمایا تم میری لائی ہوئی شریعت کونافذ کردو تم دیکھو گے کہ تم اپنے ہاتھوں میں زکوٰة تقسیم کرنے کے لیے نکلو گے مگر تمہیں کوئی غریب نہیں ملے گا یہی ہوا دنیا نے دیکھا جب مدینے میں اسلامی فلاحی ریاست قائم ہوئی تو کوئی زکوٰة لینے والا نہ تھا سب کو اللہ نے مال دار بنا دیا تھا۔اگر آج بھی اسلامی ملکوں میں صدقِ دل سے اسلامی نظام زندگی رائج کر دیا جائے تو مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست جیسے نتائج نکل سکتے ہیں امن و امان قائم ہو سکتا ہے ایک دوسرے کا احترام اور قدر کا ماحول قائم ہو سکتا ہے بیرونی قرضوں اور سودی نظامِ معیشت سے مسلمان ملکوں کی جان چھوٹ سکتی ہے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمت العالمین بنا کر بھیجا ہے وہ پوری انسانیت کے لیے اللہ کے رسول ہیں۔ کاش یہودی،عیسائی اور دنیا کے تمام مشرکین رسول کی تعلیمات کو اپنالیں تو دنیا جو اُن ہی کی وجہ سے دکھوں میں مبتلا ہے امن کا گہوارہ بن سکتی ہے تمام مصیبتیں ختم ہوسکتی ہیں ۔

Exit mobile version