Site icon Daily Pakistan

فتنہ ہندو ستان، بی ایل اے اور داعش ایک پیج پر

یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے فتنہ ہندوستان کی چھتری تلے مختلف شکلوں اور چہروں کے ساتھ پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہونے کی مکروہ سعی میں مصروف ہیں البتہ یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان کی عوام ،پاک افواج اور سول سوسائٹی بحیثیت مجموعی دشمن قوتوں کے سامنے کامیابی سے سیناسپہ ہے ۔مبصرین کے مطابق یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی جس لہر کا سامنا ہے، اس میں کئی شدت پسند گروہوں نے مختلف ادوار میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے یعنی کچھ مذہبی انتہاپسندی کے نام پر سامنے آئے تو کچھ علیحدگی پسند نظریات کے تحت۔ یاد رہے کہ ان گروہوں میں داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی نمایاں ہیں۔ اگرچہ ان کے مقاصد، نظریات اور حکمتِ عملی مختلف دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کی سرگرمیوں کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے پاکستان کی ریاستی خودمختاری، استحکام اور نظریاتی وحدت کو کمزور کرنا۔حالیہ دنوں میں ISKP اور BLA کے درمیان جاری تناؤ اور باہمی جھڑپوں کی خبریں منظرِ عام پر آئیں ۔ کچھ حلقے اسے ان گروہوں کی کمزوری اور پاکستان کے لیے ”مثبت اشارہ” قرار دینے لگے لیکن ریاست پاکستان نے اس صورتحال کو خوش فہمی کے بجائے سنجیدگی سے لیا ہے۔درحقیقت، دہشت گردوں کی آپس کی لڑائی ریاست کے لیے کسی ریلیف کی بجائے ایک انتباہ ہے کہ خطرہ اب بھی موجود ہے، بلکہ شاید پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دہشت گرد گروہ بعض اوقات اپنی بقا اور طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے آپس میں بھی برسرِپیکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی لڑائی ذاتی مفادات، وسائل کی تقسیم، یا مقامی اثر و رسوخ کے لیے ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا اصل ایجنڈا — ریاست مخالف کارروائیاں — مشترکہ رہتا ہے۔ ISKP، مذہبی شدت پسندی کی آڑ میں نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں ریاستی اداروں اور عوام کے خلاف استعمال کرتا ہے، جب کہ BLA علیحدگی پسندی کے بیانیے کو فروغ دے کر ملک کے ایک اہم صوبے کو ریاست سے کاٹنے کے ناپاک عزائم رکھتا ہے۔ دونوں کی کارروائیاں چاہے مختلف علاقوں میں ہوں، لیکن ان کا نتیجہ ایک ہی ہے: انتشار، خوف اور قومی وحدت پر حملہ۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کسی قسم کی رعایت نہیں دے گا، چاہے وہ کسی مذہبی یا نسلی بیانیے میں لپٹی ہو۔ ریاست کسی بھی گروہ کے ”اندرونی اختلافات” کو سیکیورٹی حکمتِ عملی کی بنیاد نہیں بناتی۔ ISKP اور BLA کے درمیان جھگڑے ریاستی اداروں کو صرف ایک پیغام دیتے ہیں: دشمن گروہ نہ صرف اب بھی موجود ہیں بلکہ نئے طریقوں سے خود کو منظم کر رہے ہیں۔ ان کی لڑائی، اگرچہ وقتی ہو سکتی ہے، مگر اس سے پیدا ہونے والی افراتفری معصوم شہریوں کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ ان دونوں گروہوں کو بیرونی پشت پناہی حاصل ہے۔ ISKP کو بعض غیر ریاستی عناصر اور علاقائی دشمن قوتوں کی مدد حاصل ہونے کے شواہد موجود ہیں، جبکہ BLA کی سرگرمیوں میں بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا عمل دخل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور ان گروہوں کو سیاسی یا مالی تعاون فراہم کرنیوالے عناصر دراصل پاکستان کی سالمیت پر حملہ آور ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کی ریاست ایسے کسی بھی اقدام کو اپنی خود مختاری کیخلاف اعلانِ جنگ سمجھتی ہے اور اس ضمن میں پاکستان کے نظریاتی اصول اور آئینی دائرہ ہر شہری کے لیے مساوی حقوق اور سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں۔ ISKP اور BLA دونوں ہی اس نظریاتی بنیاد پر حملہ آور ہیں۔ ایک طرف یہ مذہب کو استعمال کر کے فساد پھیلاتے ہیں، تو دوسری طرف قومیت کے نام پر علیحدگی کا بیج بوتے ہیں۔مبصرین کے مطابق یہ دونوں پاکستان کے اس پیغامِ وحدت کے خلاف کام کرتے ہیں جس پر ہمارا قومی تشخص قائم ہے۔ریاست کی ذمہ داری صرف دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں بلکہ ان نظریات کا بھی قلع قمع کرنا ہے جو معاشرے میں شدت پسندی، نفرت اور تقسیم کا زہر گھولتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان نے نہ صرف عسکری سطح پر اقدامات کیے بلکہ سوشل میڈیا مانیٹرنگ، تعلیمی اصلاحات، اور قومی بیانیے کی تشکیل کے ذریعے ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے: جو کوئی بھی، کسی بھی شکل میں ریاستی سلامتی، قومی وحدت یا عوامی جان و مال کو خطرے میں ڈالے گا، اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ چاہے وہ ISKP ہو یا BLAیا فتنہ ہندوستان،سب کے خلاف کارروائیاں بلا امتیاز جاری رہیں گی۔ واضح ہو کہ ان کے اندرونی اختلافات ہمیں ہرگز غافل نہیں کریں گے، کیونکہ ہماری نظر صرف اس بات پر ہے کہ وہ کس نظریے اور کس ناپاک ارادے کے تحت کام کر رہے ہیں۔یہ کہنا درست ہو گا کہ پاکستان اب دہشت گردی سے صرف دفاعی انداز میں نہیں بلکہ جارحانہ اور پیشگی حکمتِ عملی کے تحت نمٹ رہا ہے اور ملک کی سیکیورٹی فورسز، انٹیلیجنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے سے زیادہ مربوط، چوکس اور فعال ہیں۔ ان کے لیے یہ اہم نہیں کہ دشمن کون سا جھنڈا اٹھائے، بلکہ یہ اہم ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے سرگرم ہے۔ ریاست کی توجہ ”وہ کس سے لڑ رہے ہیں” پر نہیں بلکہ ”وہ کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں” پر مرکوز ہے۔نتیجتاً، دہشت گرد گروہوں کے درمیان اندرونی لڑائیاں نہ پاکستان کے لیے کسی سکون کا سبب ہیں اور نہ ہی کمزوری کی علامت۔ بلکہ یہ ایک اور یاد دہانی ہے کہ دشمن کئی چہروں میں موجود ہے، اور ہمیں ہر چہرے کو پہچان کر اس کا بھرپور جواب دینا ہوگا۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں مکمل طور پر یکسو، منظم اور پرعزم ہے۔ ریاست کسی گروہ کو اس بنیاد پر رعایت نہیں دے سکتی کہ وہ کسی دوسرے دہشت گرد گروہ سے برسرپیکار ہے۔ ISKP اور BLA جیسے گروہ چاہے آپس میں لڑیں یا نہ لڑیں، پاکستان کے لیے ان کی موجودگی ہی ایک مسلسل خطرہ ہے، اور اس خطرے کا جواب صرف ایک ہے: ریاست کی غیر متزلزل، متحد اور فیصلہ کن طاقت۔

Exit mobile version