Site icon Daily Pakistan

قائد اعظم ؒ اےک عظےم راہنما

دنےا بھر مےں حضرت عےسیٰ علےہ السلام کے ماننے والے 25دسمبر کو کرسمس ڈے کے طور پر مناتے ہےں کہ اس روز حضرت ےسوح مسےح دنےا مےں تشرےف لائے مگر اہل پاکستان کےلئے اس دن کی دوہری اہمےت ہے کہ ےہی دن بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒکا ےوم پےدائش بھی ہے جن کی دور بےن نگاہوں نے بر صغےر کے مسلمانوں کےلئے الگ مملکت کی ضرورت کا احساس کےا اور پھر اس کے قےام کےلئے انتھک جدوجہد اور بے بدل قےادت سے اس تصور کو حقےقت مےں تبدےل کر کے دم لےا ۔بلا شبہ پاکستان کا معرض وجود مےں آنا گزشتہ صدی کا نہاےت اہم واقعہ ہے کہ کسی فوجی طاقت ،کسی مسلح جدوجہد کے بغےر اےک نئی مملکت وجود مےں آئی ،جسے اس وقت دنےا کی سب سے بڑی رےاست کا درجہ حاصل ہوا ۔سلےم قرےشی صاحب فرماتے ہےں کہ ”مسلمانان ہند نے اےک طوےل سفر طے کےا ۔سرسےد احمد خان نے انہےں علےحدہ وجود کا احساس دےا ۔سر آغا خان نے ان کےلئے برطانوی حکمرانوں سے جداگانہ طرز انتخاب کا حق حاصل کےا ۔اقبالؒ نے انہےں اےک نظرےہ دےا اور انہےں علےحدہ تشخص کے احساس سے سر شار کر دےا ۔جناح ؒ نے متحد کر کے اےک زبردست سےاسی تخلےق کا مظاہرہ کےا اور نتےجتاًان کےلئے علےحدہ ملک تخلےق کر دےا ۔سےاسی ذہانت اور آب و تاب قائد کی زندگی کا حسن تھا اور اسی خوبی کی بنا پر وہ اےک قوم پرست مسلمان سے اےک مسلمان قوم پرست مےں تبدےل ہو گئے۔اس مےں شک نہےں کہ پاکستان خالص جمہوری عمل اور برطانوی آئےنی رواےات کے دائرے کے اندر جدوجہد کے ذرےعے معرض وجود مےں آےا ۔ےہ الگ بات ہے کہ اپنے قےام کے تھوڑا عرصہ بعد ہی اسی جمہوری عمل سے پرے ہٹنے کا عمل شروع ہو گےا اور جمہورےت اس نئی مملکت کے امور سے بے دخل ہوتی گئی تا ہم جمہورےت سے بے دخلی کا ےہ عمل بانی پاکستان کے اس دنےا سے رخصت ہونے کے بعد شروع ہوا ۔اگر وہ کچھ عرصہ بقےد حےات رہتے تو شاےد معاملات کی وہ شکل نہ ہوتی جو ان کی وفات کے بعد بن گئی اور جس کا خمےازہ نوزائےدہ قوم اب تک بھگتتی آرہی ہے ۔ علامہ اقبالؒ نے مرد مومن کی جن تےن اہم شخصی خصوصےات ےعنی ےقےن محکم ،عمل پےہم اور محبت فاتح عالم کا ذکر کےا ہے ،قائد اعظمؒ کی شخصےت انہی سے گندھی ہوئی تھی بلکہ اےسا لگتا ہے کہ جےسے ےہ شعر کہتے وقت ان کے سامنے بابائے قوم کا نمونہ ہی تھا ۔ان کی پوری زندگی مےں جو کردار سامنے آتا ہے اس مےں پختہ ےقےن اور پےہم عمل ابھر کر سامنے آتے ہےں ۔جب انہوں نے اس حقےقت کا احساس کر لےا کہ مسلمان ہندوﺅں سے ثقافتی طور پر الگ ہےں اور ےہ کہ ہندو اکثرےت کے غلبہ سے محفوظ ہونے کا اےک ہی راستہ ہے کہ مسلمانوں کےلئے الگ مملکت حاصل کی جائے تو انہوں نے اسے اپنا مقصد حےات بنا لےا اور پھر اس کےلئے جدو جہد مےں لگ گئے ۔اس دوران ان کا ارادہ کبھی متزلزل نہےں ہوا ۔ےہ قائد اعظمؒکی شخصےت ہی تھی جس نے ہمےں نا امےدی سے باہر نکالا ،خوفناک امکانات سے نبرد آزما ہوئی ،نامساعد حالات مےں ڈٹی رہی اور تا دم آخر ہمارے مقاصد اور مفادات کے تحفظ کےلئے کام کرتی رہی ۔ان کا دو قومی نظرےہ جو اےک شاندار حکمت عملی تھا فرقہ وارانہ تعطل کا اےک خوش تدبےرانہ حل اور تارےخی حقےقت کا واضع اظہار تھا۔قائد اعظمؒ کی قےادت مےں آل انڈےا مسلم لےگ کی سےاست اپنی نوعےت کے اعتبار سے اکثرےت کے غلبہ کے مقابلے مےں اقلےتوں کی حفاظت کی سےاست تھی ۔ےہی وجہ ہے ہندوستانی سےاست کے تناظر مےں قائد اعظمؒ کی آواز اقلےتوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے سب سے طاقتور آواز تھی ۔قائد اعظمؒاےک با اصول اوردےانت دار وکےل تھے ۔ان کی ذاتی و سےاسی زندگی قول و فعل کی ہم آہنگی کا حسےن نمونہ تھی۔وہ جو بات کہتے اس پر ان کا کامل ےقےن ہوتا تھا ۔قائد اعظمؒ نے ابتدائی اےام وکالت مےں اےک بار موکل سے فےس لی لےکن سماعت سے قبل ہی مقدمہ خارج ہو گےا تو قائد اعظمؒ نے موکل کو بلا کر فےس واپس کر دی ،موکل کو قائد اعظمؒ کا ےہ عمل دےکھ کر خوشگوار حےرت ہوئی کہ کسی وکےل نے وکالت نامہ پر دستخط کرنے کے بعد فےس واپس کی ہو لےکن قائد اعظمؒ نے فرماےا کہ مےں نے چونکہ آپ کا مقدمہ نہےں لڑا ۔مےں صرف اپنی محنت کا عوضانہ لےتا ہوں ۔اس لئے ےہ رقم مےرے لئے جائز نہےں ۔اگرچہ ےہ اےک معمولی واقعہ لگتا ہے لےکن ہم صرف وہی کچھ حاصل کرےں تو ہمارے نظام مےں بہت سی خرابےوں کی اصلاح ہو جائے لےکن ہمارے سےاستدان ہوں ےا وکلاءکوئی بھی کلاس ہو کوشش ےہی ہوتی ہے کہ مال آنا چاہےے خواہ کسی بھی طرےقے سے آئے ۔قائد اعظمؒ نے جب پاکستان حاصل کر لےا تو اپنے لئے وزارت عظمیٰ کا با اختےار منصب حاصل کرنے کے بجائے گورنر جنرل کا منصب لےنا پسند کےا اور نہ ہی اختےارات مےں اضافے کےلئے اےکٹ1935ءمےں ترمےم کروانا پسند کےا بلکہ جونہی آپ نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالا مسلم لےگ کی صدارت سے الگ ہو گئے کہ جماعتی ،ملکی اور حکومتی عہدے الگ الگ ہےں ۔بحیثےت گورنر جنرل آپ حکومتی معاملات مےں بالکل مداخلت نہےں کرتے تھے حالانکہ ملک آپ ہی کی جدوجہد کا ثمر تھا ۔اےک بار آپ کا اےک قرےبی عزےز گورنر جنرل ہاﺅس مےں آےا اور آپ کے اے ڈی سی (جنرل گل حسن) کو اپنا کارڈ دےا جس پر لکھا تھا کہ ”برادر آف گورنر جنرل“ قائد نے کارڈ دےکھ کر سخت غصے کا اظہار فرماےا اور اس سے ملنے سے انکار کر دےا ۔اے ڈی سی کو ہداےت دی کہ اس کو فوراً باہر نکال دو کہ ےہ آدمی ان کے منصب اور رشتے کو اےکسپلائٹ کرنا چاہتا ہے ۔آج صدر ،وزےر اعظم ،گورنر اور وزراءخود اپنا نام کم استعمال کرتے ہےں ان کے نام اور منصب ان کے رشتے دار زےادہ استعمال کرتے ہےں ۔قائد اعظمؒ کو مشرقی پاکستان جانا تھا لےکن حکومت کے پاس جو طےارہ موجود تھا اسے پٹرول لےنے کےلئے راستہ مےں بھارت کے کسی شہر مےں رکنا پڑتا تھا ۔قائد اعظمؒ بھارت مےں رکنا نہےں چاہتے تھے ،کہا گےا کہ برطانےہ سے طےارہ چارٹر کر لےتے ہےں ۔قائد اعظمؒ نے اخراجات کے بارے مےں پوچھا تو زےادہ اخراجات کے باعث انکار کر دےا کہ مےرا ملک اس قدر اخراجات کا متحمل نہےں ہو سکتا ،چنانچہ پاکستانی طےارے کو ہی مشرقی پاکستان پہنچاےا گےا ۔ قائد اعظمؒ زےارت مےں علےل تھے کہ سٹاف نے آپ کے اےک پرانے کک جو فےصل آباد کا رہنے والا تھا اور جس کا پکا ہوا کھانا آپ کو بہت مرغوب تھا کو زےارت بلاےا گےا ۔جب قائد اعظمؒ کو اس واقعے کا علم ہوا اور استسفسار کےا کہ اس کک کو فےصل آباد سے کس نے منگواےا اور اخراجات کس نے برداشت کئے تو کہا گےا کہ حکومت نے اس کا اہتمام کےا اور سرکاری خزانے سے رقم ادا ہوئی ۔آپ نے ےہ سن کر سٹاف سے سختی کی اور اس کے آنے کے جملہ اخراجات جےب سے ادا کئے کہ ےہ کہاں لکھا ہے کہ گورنر جنرل کےلئے سرکاری خرچ پر کک فےصل آباد سے منگواےا جائے ۔ےہ تھی وہ عظےم شخصےت جس نے پاکستان بناےا ۔عظےم قومےں اپنے عظےم ورثہ کو محفوظ کرتی ہےں ۔وہ اپنے ہےروز کی عزت کرتی ہےں ۔لےکن افسوسناک حقےقت ہے کہ ہم اپنے عظےم لےڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو وہ اتنی عزت نہ دے سکے جتنا ان کا حق تھا ۔اس کے برعکس ہم نے ان کے اصولوں اور تصورات کو نظر انداز کر دےا ۔ان کی وفات کے بعد پاکستان مےں جو ہوا وہ ان کی سکےم کا حصہ نہےں تھا ۔وہ پاکستان کو حقےقی جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے ۔انہوں نے 1949ءمےں سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے فرماےا کہ ” مےرے ذہن مےں اےک اصول جاگزےں ہے وہ ےہ کہ ہمےں چاہےے کہ ہم حقےقی اسلامی تصورات اور اصولوں کی بنےاد پر اپنی جمہورےت کی بنےاد رکھےں “۔جمہورےت انہےں بہت عزےز تھی ۔قائد اعظمؒ پاکستان کو اےک اےسی جمہوری اور فلاحی رےاست بنانے کے خواہش مند تھے جس مےں اقلےتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں ۔انہوں نے قےام پاکستان کے بعد گورنر جنرل کی حےثےت سے کرسمس کی مرکزی تقرےب مےں شرکت کی ۔ قائد اعظمؒ کا ےوم پےدائش حسب رواےت جوش و خروش سے منانے کا اعلان تو ہو گا مگر ےہ بات بدستور گلدستہ طاق نسےاں مےں رہے گی کہ بابائے قوم پاکستان کو کےسا بنانا چاہتے تھے ؟کہ حکمران اسے بھلانے مےں ہی عافےت سمجھتے ہےں ۔ہم کرسمس کے تہوار پر اپنے ہم وطن مسےحی بھائےوںکو مبارک باد پےش کرتے ہےں اور ان کی صحت خوشحالی اور سلامتی کےلئے دعا گو ہےں ۔

Exit mobile version