پارلیمانی جمہوریت کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوتے ہی ایوان زیریں میں سپیکراورڈپٹی سپیکر کا چناﺅعمل میں لایاجاچکاہے دونوں عہدوں پر انتخاب بخیروخوبی پرامن طورپرمنعقدہوا ۔ایاز صادق سپیکر منتخب ہوئے وہ ایک تجربہ کار اورمنجھے ہوئے سپیکرہیں اس سے قبل انہیں پانچ سال کاایوان چلانے کاتجربہ حاصل ہے قومی اسمبلی کو چلاناآسان کام نہیں مگرایازصادق نے نہایت حوصلہ مندانہ انداز میں حزب اختلاف اور حکومت دونوں کومناسب وقت دیا اور انہیں اظہار رائے کی پوری پوری آزادی دی ۔امید ہے اب ایک بارپھر وہ ایوان کومکمل طورپرجمہوری اورپرامن اندازمیں چلاتے رہیںگے۔قومی اسمبلی میں نعروں اور شور شرابے کے دوران مسلم لیگ (ن)اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار سردار ایاز صادق اسپیکر اور سید غلام مصطفی شاہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ایاز صادق نے 199 ووٹ جبکہ ان کے مدمقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عامر ڈوگر نے 91 ووٹ حاصل کئے۔سید مصطفی شاہ نے 197جبکہ جنید اکبر نے 92ووٹ حاصل کئے۔ بعدازاں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے عہدے کا حلف اٹھایا۔ پی کے میپ کے سربراہ محموداچکزئی نے انتخابی نتائج میں تبدیلی کے ذمہ داروں کو ملک وقوم کا غدار قرار دیتے ہوئے کہاکہ فوج اورایجنسیوں کو سیاست سے توبہ کرنا ہوگی عامر ڈوگرکاکہناتھاکہ ہمارا مینڈیٹ واپس کریں مفاہمت کیلئے تیار ہیں بیرسٹر گوہر نے کہاکہ صرف فارم 45والا بندہ یہاں بیٹھ سکتاہے جبکہ مسلم لیگ (ن)کے احسن اقبال نے اپوزیشن کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ ملکر مسائل حل کرنا ہوں گے ۔ عمر ایوب نے کہا کہ اس ہاﺅس میں گھس بیٹھیے آکر بیٹھ گئے ہیںیہ وہ لوگ ہیں جو جعلی مینڈیٹ پر ایوان میں آئے ہیں، قیدی نمبر 804 کو قائد ایوان کی سیٹ پر بٹھائیں گے۔ایوان میں اظہارخیال کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ جب قومی اسمبلی میں بے ضابطگیاں ہوں گی تو نعروں سے گلا خراب تو ہوگا، گلا خراب ہو یا کٹ جائے ہم نے آواز اٹھانی ہے۔اسپیکر عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے والوں کو ایوان سے باہر نکالیں۔ہماری خواتین ہاﺅس میں نہیں، کیسے اسپیکر کا الیکشن منعقد کر سکتے ہیں۔ جنیداکبرخان نے کہا کہ اس اسمبلی کو نہیں مانتے، لیڈر کے باہر آنے تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک ہماراحق ہمیں نہیں ملتا کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ایوان کوچلنے دیں گے ۔ کسی ادارے، جرنیل یا قاضی کو حق نہیں کہ ہمارے فیصلے کرے، جو کہتے عمران خان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگاکیوں کہ ہم نے کراس لگادیا، ہم وہ کراس مٹا کر آگئے اورکوئی غلط فہمی میں نہ رہے تیرے ہاتھ بھی توڑ دیں گے۔ہم یہاں مفاہمت یا کوئی بات کرنے نہیں آئے ایوان میں موجود ارکان میں سے آدھے سے زیادہ ہارے ہوئے لوگ ہیںیہ اسمبلی اسوقت تک نہیں چلے گی جب تک حق مارنے والے لوگ نکل نہیں جاتے۔جب تک ہماری قیادت ہمارا لیڈرباہر نہیں آتا،خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا انتخابی نتائج میں تبدیلی کے ذمہ داران پاکستان اور عوام کے غدار ہیں آئین سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کھلواڑ کرتی ہے ججز ، جرنیلوں اور سیاستدانوں کو عہد کرنا ہوگا کہ آئین کی پاسداری کریں گے یہ ہاﺅس 22 کروڑ لوگوں کا نمائندہ ہے ، کچھ لوگ پارلیمان کو بکرامنڈی بنانا چاہتے ہیں۔نوازشریف کہتے تھے ووٹ کو عزت دو، عمران خان بھی عوام کی طاقت سے آگیا ہے جس کو ووٹ ملا ہے اس کے حق کو تسلیم کر لیں سب طے کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاست میں نہیں ہوگا۔فوج اورایجنسیوں کو سیاست سے توبہ کرنا ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد منظور کی جائے جن ججوں نے مارشل لا کی حمایت نہیں کی ان کو ہیرو قرار دیا جائے اور جن ججوں نے مارشل لا کی حمایت کی ان کی تنخواہیں بھی واپس لی جائیں۔عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا یہ ایوان متفقہ مطالبہ کرے۔نکتہ اعتراض پر ملک عامر ڈوگرنے کہاکہ بانی پی ٹی آئی مفاہمت کےلئے تیار ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے ۔
نوازشریف اورفضل الرحمان کی ملاقات
مولانافضل الرحمان کی سیاست ، حکمت ،تدبر ،دور اندیشی ،صلح اورامن پرمحیط ہے ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ حکومت اوراپوزیشن مل جل کرکاروبارحکومت چلائے اورملکی ترقی کی راہ میں اپنااپناکرداراداکریں۔اس مقصد کے لئے وہ مختلف حکومتوں کے ساتھ ملکرکام کرتے رہیںگے۔اب اس بار انہوں نے حکومت کاحصہ نہ بننے کااعلا ن کیاہے تاہم حکمرانوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ ایک بارپھر اپنی روایتی سیاست کے تحت حکومت کے ساتھ ملکرحکومت کاہاتھ بٹاسکیں۔ چنانچہ اسی مقصد کے لئے مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف نے جمعیت علما اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ساتھ چلنے کی دعوت دیدی۔نواز شریف نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات کی۔ نواز شریف کے ساتھ احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے، نوازشریف کی آمد پر فضل الرحمن، گورنر خیبر پختونخوا غلام علی اور عبدالغفور حیدری، نور عالم خان نے بھی نواز شریف کا استقبال کیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے قائدین کی ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال سمیت اہم امور پر بات چیت کی گئی۔ اس دوران فضل الرحمان نے نواز شریف سے گلے شکوے کیے۔ دوسری طرف (ن) لیگی قائد نے جے یو آئی سربراہ سے حکومت سازی میں مدد کی درخواست بھی کی۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات اچھی رہی۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے موقف سے آگاہ کیا، مولانا فضل الرحمان ہمارے رہنما ہیں، ہم نے سخت وقت گزارا ہے، ہمیں مولانا فضل الرحمان سے ہمیشہ رہنمائی ملتی رہی ہے، ہماری کوشش ہے اور وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔نواز شریف مولانا فضل الرحمان سے ووٹ مانگنے کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ ملک کو درپیش سیاسی صورتحال پر بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی ہم سے کوئی ناراضگی نہیں ہے۔ محمود خان اچکزئی ایک معتبر اور محب وطن سیاست دان ہیں، محمود خان اچکزئی کو بھی ساتھ جوڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو احترام میاں نواز شریف کی نظر میں اور مولانا کی نظر میں نواز شریف کا ہے وہ مثالی ہے، ہمیشہ ایک دونوں نے ایک دوسرے کی بات مانی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جن عہدوں کیلیے پی پی اور ن لیگ میں کوئی بات طے نہیں ہوئی وہاں ایم کیو ایم کو موقع ملے گا۔ پارلیمنٹ ہاوس کے باہرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری پر اعتراض کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری کسی ایک شخص سے متعلق ایسی کوئی بات نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جن عہدوں کیلیے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کوئی بات طے نہیں ہوئی، مجھے امید ہے کہ وہاں ایم کیوایم کو موقع ملے گا۔ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں حکومتی بینچز پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا، اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ طے پاگیا۔ دونوں جماعتوں کے رہنماوں کے درمیان اہم اجلاس ہوا، جس میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ تین نکات پر مشتمل معاہدے میں بلدیاتی نظام اور کراچی کے مسائل سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں چارٹر کے مطابق آئینی ترامیم ترجیح ہو گی۔ معاہدے میں پہلا نکتہ ہے کہ انتظامی مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں آئین میں لکھ دیا جائے کہ ڈسٹرکٹ اور ٹاون کو مالی وسائل دیے جائیں جب کہ تیسرا نکتہ ہر چار سال بعد مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے پر قانون سازی کی جائے گی۔ ادھر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ نے کہا کہ مولانا سے عزت و احترام کا رشتہ ہے،امید ہے کہ وہ ووٹ کاسٹ کرینگے، گورنر سندھ کے معاملے پر تمام جماعتوں سے مشاورت کرینگے، جمہوریت کے تسلسل اور معیشت کے استحکام کیلئے آگے چلنا ہوگا۔