Site icon Daily Pakistan

مذمت اور مطالبہ

جب سے سیاست، ملکی حالات و واقعات اور عالمی معاملات کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہوئی ہے مذمت اور مطالبات کے بیانات سننے اور پڑھنے کا اتنا تجربہ ہوا کہ اب تو ہنسی آجاتی ہے،یقین جانیے مجھے تو کبھی یہ سمجھ نہ آئی کہ یہ مذمت کس کے خلاف اور مطالبات کس سے کیے جاتے ہیں،ان مذمتوں اور مطالبات کا دنیا پر کیا اثر ہوتا ہے اور اس سب ڈرامے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔مجھے تو کبھی کبھی یہ مذمتیں اور مطالبات کسی جنازے پر حاضری لگوانے والے ان لوگوں کی سی لگتی ہے جو مرحوم کے دنیا سے جانے کا افسوس اور لواحقین کا غم بانٹنے کی بجائے صرف لواحقین سے جلد از جلد مل کر حاضری کے معاشرتی فرض سے سبکدوش ہونے کی جلدی میں ہوتے ہیں،اور بھیڑ میں لواحقین کی توجہ حاصل کرنے کے بعد ایک آدھ جملہ بول کر جان کی خلاصی کراتے یہ جا وہ جا۔جب سے خبریں، حالات حاضرہ اور عالمی حالات سے باخبر رہنے کا خبط دماغ پر سوار ہوا روزانہ ہی مذمت اور مطالبہ کی حاضری لگوانے کی رسم ادا ہوتی دیکھی،بات کی طوالت سے بچنے کے لیے اپنی یاداشت کو کریدتے ہوئے کچھ مذمتیں اور مطالبات پیش خدمت ہیں۔
1۔اہم بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں پر مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بھارت کو اشتعال انگیزی سے باز رکھا جائے۔پاکستان، کچھ ایشیائی ممالک کا1998کے بھارتی ایٹمی دھماکے کے موقع پرردعمل ۔
2۔ہم افغانستان پر طالبان حکومت کے قبضے کی مذمت کرتے ہیں اور عوام کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔دنیا کا شمالی اتحاد کی ہار اور طالبان کی جیت پر ردعمل ۔
3۔ہم افغانستان پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہیں، دنیا کے کچھ ممالک کا افغانستان پر امریکی حملے پر رد عمل۔
4۔ہم کشمیر میں انڈیا کے ظلم و تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے اس ظلم کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
5۔ہم طالبان کے امریکی دستوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔
6۔ہم اسرائیل کے فلسطین اور غزہ کے لوگوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کرنے کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے یہودی بستیوں کے پھیلا کا عمل روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
7۔ہم یمن سعودی عرب جنگ کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس جنگ کو روکا جائے۔
پچھلے پانچ سالوں میں یہ لطیفہ تو روزانہ ہی سماعت سے ٹکراتا ہے مثلا ً ہم روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے اس تنازعہ کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں. امریکہ، اقوام متحدہ، دنیا۔
ہم روس کی یوکرین پر بلا اشتعال بمباری کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم اسرائیل کا غزہ پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں،اقوام متحدہ، عرب ممالک، روس، چین، دنیا۔
ہم حماس کے اسرائیل پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور حماس سے نرم رویے کا مطالبہ کرتے ہیں،اقوام متحدہ اور اسرائیل کے حمایتی ممالک۔
ہم اسرائیل کا لبنان پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے مداخلت کامطالبہ کرتے ہیں،عرب ممالک، اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا۔
ہم حماس راہنما کی ایران میں اسرائیلی کاروائی میں شہادت پر مذمت کرتے ہیں،عربوں سمیت دنیا۔
ہم حزب اللہ قیادت کی اسرائیلی حملے میں شہادت پر مذمت کرتے ہیں۔
ہم یمن کی اسرائیل پر میزائل حملہ کی مذمت کرتے ہیں۔
ہم بھارت کی پاکستان پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا سے دو ایٹمی طاقتوں کو تصادم سے روکنے پر اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں،اقوام متحدہ، عرب، روس،ایران اور دنیا۔
ہم اسرائیل کا ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور دنیا کو اس شر انگیزی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں، اقوام متحدہ، عرب اور دنیا۔ ہم امریکہ کے ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری سے ایران اسرائیل جنگ بندی کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کامطالبہ کرتے ہیں،عربوں سمیت تمام اسلامی دنیا، او آئی سی، روس، چین،اقوام متحدہ اور اسرائیل امریکی اتحاد کے علاوہ پوری دنیا۔تا دم تحریر
مذمت اور مطالبات مگر بے سود بے فائدہ اور کس سے مذمت، کونسی دنیا سے مطالبہ کس نے کان دھرا، کس نے سنا،صرف حاضری لگوانے کی رسم عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔حالانکہ کیا دنیا کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کو روک نہ سکتی تھی۔کیا یمن و سعودی عرب جنگ کو روکا نہ جا سکتا تھا، کیا روس و یوکرائن کو جنگ کے دھانے سے موڑا نہیں جا سکتا تھا۔کیا اسرائیل کو وقت پر لگام نہ ڈالی جا سکتی تھی جو کہ مشرق وسطیٰ کے بڑے حصے پر مسلمانوں کے خون سے دن بدن ہاتھ رنگ رہا ہے اور امریکہ کی آشیرباد سے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔کیا انڈیا پاکستان کو جنگ سے روکنے کے لیے پہلے سے اقدامات نہ کیے جا سکتے تھے اور اب ایران اسرائیل جنگ کے شعلے بھڑکنے سے پہلے ہی ٹھنڈے نہ کیے جا سکتے تھے۔اورکیا مسلم دشمنی سے کفر کو روکا نہیں جا سکتا جبکہ آدھی دنیا اسلامی ممالک پر مشتمل ہے اور یہ سب ملک ہر طرح کے وسائل سے مالا مال بھی ہیں۔مگر نہیں ہم سب خاص طور پر اسلامی ممالک اپنے بھائیوں کو خون بہتے ہوئے دیکھ کر بھی صرف مذمت اور مطالبات سے حاضری لگا رہے ہیںاور کفر کو مزید طاقت کا مظاہرہ کرنے کی چھوٹ دے رہے ہیں۔ کیا اقوام متحدہ صرف مذمتوں اور مطالبات کی بھیک تک ہی محدود رہتے ہوئے امریکی مفادات کی نگہبان ہی رہے گی.اور کیا او آئی سی صرف مذمتوں اور مطالبات کے لیے اسلامی قیادت کی میل و ملاقات کا بہانہ بنی رہے گی۔
کوئی تنازعہ، کوئی مسئلہ بھی ایسا نہ تھا جسے دنیا اور خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک حل نہ کر سکیں مگر صرف مذمت و مطالبات سے حاضری لگوائی جاتی ہے اور یہ رویہ دنیا کو نئی تبائی کی طرف لے جا رہا ہے جو کہ دنیا کو ایک ایسے موڑ پر لے جائے گا کہ نہ کوئی مذمت رہ جائے گی اور نہ مطالبہ، صرف افسوس ہوگا، پچھتاوا ہوگا کبھی نہ ختم ہونے والا۔

Exit mobile version