حال ہی میں فیکٹ فورم تھنک ٹینک کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان میں منعقد ہونے والی خصوصی نشست مسعود مفتی کی پانچویں برسی کا احوال ضرور تھی، مگر اس کی فضا میں تعزیت سے زیادہ اعتراف اور فکری روشنائی کی خوشبو تھی۔ یہ تقریب اس شخصیت کے لیے تھی جس نے اپنے قلم، کردار اور شہری تربیت کے نظریے سے پاکستان کے فکری سفر میں ان مٹ نقوش چھوڑے۔ صدارت پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد ملک نے کی، جبکہ کشور ناہید، خالد سعید، جلیل عالی، فریدہ حفیظ، محمد حمید شاہد اور بشری مفتی سمیت اہم اہلِ قلم نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔تقریب کی نظامت اور ابتدائی گفتگو معروف اینکر پرسن اور ادبی شخصیت عائشہ مسعود نے وقار اور سلیقے سے کی۔ ان کے ابتدائی جملوں نے محفل کے مزاج کو وہ سمت دی جو مسعود مفتی کی زندگی اور فکر کا اصل حوالہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسعود مفتی طاقت کے ایوانوں میں رہ کر بھی اپنی فکری آزادی پر سمجھوتہ نہ کرنے والوں میں سے تھے۔ ان کا ہر لفظ حق کے جمال اور کردار کے وقار کا مظہر تھا۔ مقررین نے مسعود مفتی کے فکری قد کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد ملک نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مسعود مفتی اپنی نسل کے ان چند لوگوں میں تھے جنہوں نے ضمیر کو منصب پر فوقیت دی۔ وہ ریاستی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی سچائی کے محافظ رہے۔ کشور ناہید نے اس جانب توجہ دلائی کہ انہوں نے ریاست اور شہری کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کی جڑیں بہت پہلے پہچان لی تھیں۔ ان کے مطابق مسعود مفتی کی تحریریں وہ آئینہ ہیں جن میں ریاستی رویوں کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔خالد سعید نے ان کے بیوروکریٹک تجربوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان افسروں میں شامل نہیں تھے جو طاقت کے ساتھ بدلتے ہیں بلکہ وہ طاقت کو اصولوں کے تابع رکھنے کے قائل تھے۔ جلیل عالی نے ان کی تحریروں کو سمت دینے والا ادب قرار دیا اور کہا کہ ان کے ہاں تنقید کے ساتھ تعمیر، انکار کے ساتھ امید اور حقیقت کے ساتھ راستہ دکھانے والی روشنی موجود ہے۔فریدہ حفیظ نے بتایا کہ مسعود مفتی کے افسانوں میں کردار نہیں، معاشرتی صداقتیں بولتی ہیں۔ چہرے اور مہرے کے اشعار اور نثری بیانیہ ان کے جمالیاتی ذوق کا پختہ ثبوت ہیں۔ محمد حمید شاہد نے انہیں فکشن نگار کی صورت میں مورخ قرار دیا جنہوں نے تاریخ کو صرف لکھا نہیں بلکہ اس کے اندر چھپے انسانی المیوں کو بھی آشکار کیا۔ بشری مفتی نے ان کی سیاسی جدوجہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ عوامی تربیت اور شہری شعور کا احیا تھا۔اس پروقار تقریب کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسعود مفتی کے ادبی سفر کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے فکشن کے پردے میں تاریخ کی وہ پرتیں کھولیں جو قومی بیانیے میں نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بحران پر ان کی تحریروں میں وہ صدائیں سنائی دیتی ہیں جو اصل کرداروں نے وقت کے نازک ترین موڑ پر بلند کیں۔ ان کے مطابق وہ دور محض سیاسی ناکامی نہیں تھا بلکہ اطلاعات کے پردوں کے پیچھے حقائق کو چھپانے کا المیہ بھی تھا۔ انہوں نے ان آوازوں کو قلم بند کیا جنہیں اس زمانے کی سیاست نے دبایا ہوا تھا۔ان کی تحریروں میں تاریخ، مشاہدہ اور تہذیبی شعور اس طرح ملتے ہیں کہ ہر افسانہ محض کہانی نہیں رہتا بلکہ ایک عہد کی شہادت بن جاتا ہے۔ چہرے اور مہرے میں اشعار کا برمحل استعمال متن کو محض معلومات نہیں رہنے دیتا، اسے جمالیاتی گہرائی عطا کرتا ہے۔ مسعود مفتی نے جب سیاسی جماعت بنائی تو ان کا مقصد اختیار حاصل کرنا نہیں تھا۔ وہ اسے ایک تربیتی پلیٹ فارم کہتے تھے جس کا مقصد عوام کو رعایا سے شہری بنانے کا کام تھا۔ ان کا یقین تھا کہ قوموں کی اصل طاقت ان کا شہری شعور ہے، اور تبدیلی کا آغاز فرد کی آگہی سے ہوتا ہے۔تقریب کے اختتام نے یہ واضح کر دیا کہ مسعود مفتی محض ایک ادیب یا سیاستدان نہیں تھے، وہ ایک فکری تحریک تھے۔ ان کی گفتگو آج بھی زندہ ہے، ان کی تحریریں آج بھی روشنی دیتی ہیں، اور ان کا نظریہ آج بھی سوال اٹھاتا ہے۔ وہ ایسے چراغ تھے جو بظاہر بجھنے کے بعد بھی اپنی روشنی چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسی روشنی جو آنے والے وقتوں میں بھی راستے دکھاتی رہے گی کیونکہ مسعود مفتی کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کی فکری تشکیل میں سب سے گہرا اثر ان کی سرکاری زندگی کے وہ تجربات تھے جو انہوں نے طاقت کے پردے کے پیچھے دیکھے۔ وہ محض ایک بیوروکریٹ نہیں تھے، نظام کی داخلی ساخت کے گواہ بھی تھے۔ اسی لیے ان کی تحریروں میں طاقت اور عوام کے درمیان فاصلہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اخلاقی المیہ بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ریاست کا سب سے بڑا بحران بدعنوانی یا نااہلی نہیں بلکہ یہ ہے کہ طاقت رکھنے والے شخص میں اپنے فیصلوں کے عوامی اثرات کو محسوس کرنے کی صلاحیت ماند پڑ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں بار بار ضمیر کی تربیت کا ذکر ملتا ہے۔ ایک ایسا تصور جو آج کی سیاست اور بیوروکریسی کے مباحث میں تقریبا غائب ہو چکا ہے۔ مسعود مفتی کا سب سے بڑا کارنامہ شاید یہی ہے کہ انہوں نے طاقت کے مرکز میں رہ کر بھی ضمیر کی آواز کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیا اور آنے والی نسلوں کو یہ احساس دیا کہ اخلاقی بصیرت کسی ریاست کی پہلی اور سب سے بنیادی پالیسی ہونی چاہیے۔
مسعود مفتی، فکر، فن اور عوامی شعور کا چراغ

