کرسمس کے موقع پر میڈیا میں رواداری اور ہم آہنگی کا درس دینے والی مودی حکومت پر ایک بار پھر اقلیت دشمن پالیسیوں اور انتہا پسند عناصر کی پشت پناہی کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ مودی حکومت کی انتہا پسندی پالیسیوں نے سیکولر بھارت کا گھنائونا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
حکومتی سرپرستی میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں کی زندگی بھی اجیرن کر دی ہے۔ ہندو توا ایجنڈے کے تحت ناصرف مسلمانوں کا معاشی اور سماجی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے بلکہ گائو رکھشا کے نام پر مسلمانوں پر پرہجوم تشدد کے واقعات میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مودی حکومت کے اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی تصدیق بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خود امریکہ کے سرکاری ادارے بھی کر رہے ہیں۔
مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے بعد مودی حکومت کے مظالم اب دیگر اقلیتوں تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ مودی دور میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے رپورٹ میں 25دسمبر کو بھارت کی مختلف ریاستوں آسام چھتیس گڑھ کیرالہ سمیت متعدد مقامات پر عیسائیوں کی تقریبات پر ہندو انتہا پسندوں کے حملوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہے۔ بہتر ہو گا عالمی برادری مودی حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کا نوٹس لے اورعالمی قوانین کے تحت بھارت پر پابندیاں لگائے تاکہ بھارت میں اقلیتیں سکھ کا سانس لے سکیں۔نریندر مودی کے دور حکومت میں بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوئوںسمیت اقلیتوں پر ظلم و ستم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیاہے۔جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے، ہندوتوا قوتوں نے اقلیتوں کی بقاء کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے جس سے وہ مسلسل خوف ودہشت اور عدم تحفظ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتی حکومت نے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے منظم طریقے سے اقلیتوں کو دیوارکے ساتھ لگا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس نے بھارت کو اپنی اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بنا دیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو خاص طور پر گائے کے گوشت کے استعمال یا مویشیوں کی نقل و حمل کے خلاف قوانین کے تحت تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہندوتوالیڈروں کی طرف سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی مذہبی شخصیات اور علامتوں کی توہین کرنا ایک تکلیف دہ معمول بن چکاہے۔ مساجد اور گرجا گھروں کو مسمارکیاجارہا ہے جس سے ملک کے سیکولر تانے بانے کوتباہ کیا گیا ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے ماضی میں اقلیتوں کے تحفظ میں حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرتے ہوئے بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی ہے۔ عالمی برادری کو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے بھارت میں ہندوفسطائیت کو تسلیم کرنا اور اس کا جواب دینا چاہیے۔بھارت کے جمہوری اور سیکولر نظریات کا زوال جاری ہے۔
رپورٹ میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مداخلت کریں اور اقلیتی برادریوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ دنیا کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم کو تسلیم کرنا چاہیے اور بھارتی حکومت سے ان سلسلے میں ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔وزیر اعظم مودی کا بنیادی مقصدبھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے جو ملک کے تنوع اور تکثیریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پر تشدد واقعات ہندوتوا نظریے کے تحت ایک منظم منصوبہ بندی سے کیے جا رہے ہیںسکھ فار جسٹس تنظیم کی جانب سے بھارت میں عیسائیوں کے لیے محفوظ وطن ”ٹرمپ لینڈ” کا مطالبہ سامنے آ گیا۔اقوامِ متحدہ کے تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کے تحت سکھ فار جسٹس تنظیم نے شمال مشرقی بھارت میں ایک محفوظ عیسائی وطن ”ٹرمپ لینڈ” کا نقشہ جاری کردیا ہے۔ سکھ فار جسٹس جو عالمی خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کر رہا ہے ، نے باضابطہ طور پر ”ٹرمپ لینڈ ” کی تجویز پیش کی ہے۔تنظیم کے مطابق یہ مجوزہ خطہ امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔ سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے امریکی صدر سے اس معاملے میں براہِ راست مداخلت کی اپیل بھی کی ہے۔گرپتونت سنگھ پنوں کا کہنا ہے کہ جب دنیا کرسمس منا رہی تھی، اس وقت بھارت میں عیسائی برادری کو منظم تشدد، حملوں اور جبر کا سامنا تھا۔ مودی کے دور حکومت میں نہ صرف عیسائیوں بلکہ بھارتی پنجاب میں سکھوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطہ ”سیون سسٹرز اسٹیٹس” کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں عیسائی آبادی مقامی اور تاریخی طور پر علیحدہ ہیں۔ سیون سسٹر اسٹیٹس ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ، منی پور، تریپورہ اور آسام اور اکثریتی عیسائی آبادی پر مشتمل ہیں۔ ”ٹرمپ لینڈ” کو ایک محفوظ عیسائی کوریڈور کے طور پر تجویز کیا گیا ہے تاکہ لاکھوں عیسائیوں کو پناہ دی جا سکے۔گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ یہ عیسائی آبادی اس وقت ظالم بھارتی ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ مودی کے بھارت میں بائبل کی تبلیغ جرم ،گرجا گھروں کو نذرِ آتش ، عیسائی بستیوں پر حملے جب کہ لوگوں کو بے گھر اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔سکھ فار جسٹس کی تنظیم نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات کو ہندوتوا نظریے کے تحت ایک منظم منصوبہ قرار دیا۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے آر ایس ایس کے سربراہ کے بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں موہن بھاگوت نے بھارت کو ہندو ریاست قرار دیا تھا۔ بھارت میں رہنے والوں سے رام کو خدا ماننے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جب کہ حضرت عیسی پر ایمان رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واحد عالمی رہنما ہیں جن کے پاس اس صورتحال میں مداخلت کی جرات، اختیار اور وسائل موجود ہیں۔ سکھ فار جسٹس اس وقت دنیا بھر میں عالمی خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کر رہی ہے جسے مودی حکومت نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔
مودی دور میں مسلمانوں و عیسائیوں پر مظالم

