بھارت میں وزیرِاعظم نریندر مودی اور الیکشن کمیشن کے گٹھ جوڑ سے انتخابی دھاندلی اور ووٹر لسٹ میں ہیراپھیری کا انکشاف ہوا ہے۔سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی رپورٹ نے مودی سرکار کے زیر سایہ ہونے والے "ووٹ چوری سکینڈل” کا پردہ چاک کر دیا، 2023 کے انتخابات سے قبل کرناٹک میں ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کیا گیا اور ہزاروں ووٹرز کے نام غیر قانونی طور پر حذف یا تبدیل کر دیئے گئے۔تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ 75 موبائل نمبرز کے ذریعے الیکشن کمیشن پورٹل پر جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے اور ان سے جعلی درخواستیں جمع کرائی گئیں، ضلع کالبرگی میں قائم ایک ڈیٹا سینٹر سے لیپ ٹاپس اور دیگر آلات برآمد کیے گئے جو اس جعل سازی میں استعمال ہوئے۔ کرناٹک کے الند حلقے میں ہر ووٹر کے نام کو حذف کرنے کے عوض 80 روپے فی ووٹ ادا کیے گئے، تحقیقات کے دوران بی جے پی رہنما سبھاش گٹیدار، ہرشنند اور سنتوش کے گھروں سے 7 لیپ ٹاپس اور متعدد اہم دستاویزات بھی ضبط کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق دسمبر 2022 سے فروری 2023 کے دوران الیکشن کمیشن کو 6 ہزار 18 جعلی درخواستیں جمع کرائی گئیں جن کے عوض تقریباً 4 لاکھ 80 ہزار روپے کی ادائیگیاں کی گئیں، حیران کن طور پر حذف کیے گئے ووٹرز میں سے صرف 24 افراد ایسے تھے جنہوں نے خود درخواست دی تھی۔ راہول گاندھی نے ایس آئی ٹی رپورٹ کو "ووٹ چوری” کے اپنے پہلے سے عائد کیے گئے الزامات کی تصدیق قرار دیا جبکہ کانگریس ترجمان پون کھیرا نے کہا کہ بی جے پی دور میں 80 روپے فی ووٹر کے عوض ووٹوں کی خرید و فروخت، جمہوریت کی توہین ہے ۔ پون کھیرا نے مزید کہا ہے کہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری ایک منظم اور فنڈڈ مہم کا حصہ تھی جس کا مقصد انتخابات میں بی جے پی کو ناجائز برتری دلانا تھا۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کا ووٹر لسٹوں سے چھیڑ چھاڑ اور الیکشن کمیشن سے گٹھ جوڑ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا، یہ بھارت میں جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے۔ بھارت میں عام انتخابات سے قبل بہار کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے اقلیتی برادری کے لاکھوں ووٹرز کے نام منظم انداز میں خارج کیے جا رہے ہیں۔بہار کے دس اضلاع، خصوصاً مدھوبنی، مشرقی چمپارن، پورنیہ اور ستمرھی جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے ہزاروں نام غائب کر دیے گئے ہیں۔ مدھوبنی میں 3,52,545، مشرقی چمپارن میں 3,16,793، پورنیہ میں 2,73,920 اور ستمرھی میں 2,44,962 ووٹرز کے فارم جمع نہ ہونے پر انہیں فہرست سے خارج کیے جانے کا خدشہ ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ فارم کی عدم وصولی مردہ، منتقل شدہ یا دہری رجسٹریشن کی بنیاد پر اخراج کا سبب بنی، تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اسے ہندوتوا نظریے کے تحت چلائی جانے والی خاموش مہم قرار دیا ہے، جس کا مقصد اقلیتوں اور غریب طبقات کو ان کے بنیادی جمہوری حق سے محروم کرنا ہے۔دیگر متاثرہ اضلاع میں پٹنہ، گیا، گوپال گنج، سارن، مظفرپور اور سمستی پور شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 65 لاکھ سے زائد ووٹرز کو ووٹر لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 7.24 کروڑ ووٹرز کے فارم موصول ہوئے ہیں جبکہ اعتراضات داخل کرانے کی آخری تاریخ یکم ستمبر مقرر کی گئی ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کا نعرہ صرف ایک سیاسی دعویٰ رہ گیا ہے، جبکہ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ مودی راج میں اقلیت ہونا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے ۔ ووٹ مانگنے سے پہلے ووٹر ہی مٹا دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں اور الیکشن سے متعلقہ معاملات پر نظر رکھنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ عمل جلد بازی میں مکمل کیا گیا ہے جبکہ بہار سے تعلق رکھنے والے کئی ووٹرز کا کہنا ہے کہ ان فہرستوں میں ناصرف غلط تصویریں شامل کی گئی ہیں بلکہ کثیر تعداد میں وہ افراد بھی ان لسٹوں کا حصہ ہیں جو وفات پا چکے ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں بی جے پی حکومت پر ‘ووٹ چوری’ کے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن کی فہرستوں میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا۔ انھوں نے ایک ہی ایڈریس پر درجنوں افراد کے ووٹ رجسٹر ہونے اور اسی ایڈریس پر کئی ذات اور کئی مذاہب کے لوگوں کے اندراج کے حوالے سے بات کی۔راہل گاندھی کی اس پریس کانفرنس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ‘ووٹ چوری اور ‘ووٹ چوری ایکسپوزڈ’ جیسے ہیش ٹیگ مسلسل گردش کر رہے ہیں اور لوگ مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کو اجاگر کرنے کیلئے ووٹر فہرستوں میں موجود تضادات اور خامیوں کو پوسٹ کر رہے ہیں۔اپوزیشن ارکانِ پارلیمنٹ نے ‘ووٹ چوری’ کے معاملے پر پارلیمنٹ سے الیکشن کمیشن کے دفتر تک احتجاجی مارچ بھی کیا جس کے دوران راہل گاندھی سمیت متعدد اراکین پارلیمان کو حراست میں لیا گیا۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے ‘انڈیا الائنس’ کے اراکین پارلیمنٹ کیلئے ایک عشائیہ کا اہتمام کرینگے جس کے دوران بہار میں ووٹر لسٹوں پر جامع نظرثانی اور مبینہ ‘انتخابی دھاندلی’ کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششوں پر بات چیت کی جائے گی۔ اپوزیشن ارکان نے اس صورتحال کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دے کر پارلیمنٹ میں اس پر بحث کا مطالبہ کیا ہے ۔ پارلیمان کے باہر موجود مظاہرین نے اس موقع پر ‘مودی مردہ باد’، ‘ایس آئی آر واپس لو’ اور ‘ووٹ چوری بند کرو’ جیسے نعرے لگائے ۔ ان فہرستوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے جو اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔ الیکشن کے اصلاحاتی ادارے ‘اے ڈی آر’ نے اس کے وقت پر سوال اٹھایا ہے۔
مودی کی ووٹر لسٹوں میں ہیرا پھیری

