(گزشتہ سے پیوستہ)
ڈاکٹر جاوید اقبال ہمیشہ مختلف اور نادر موضوعات پر خطبہ دینا پسند کرتے ،اور سوال جواب کے سیشن میں اپنے موضوع کے اطراف اگی ساری جھاڑیاں بھی صاف کر دیتے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ فکر اقبال کی ان سے بہتر تفہیم کسی اور کے حصے میں نہیں آئی ۔ ایک یوم اقبال پر ان کے خطبے کا عنوان تھا ” اقبال کی نگاہ میں پاکستان کی اسلامی ریاست ،مثالی سیکولر ریاست کیسے؟” انہوں نے اپنا خطبہ ہمیں اس ہدایت کے ساتھ پہلے بھجوا دیا تھا کہ ہم اس خطبے کو پمفلٹ کی صورت شائع کروا کر حاضرین میں تقسیم کریں ، تاکہ سامعین بہتر انداز اور فہم کے ساتھ اپنے سوالات اٹھا سکیں۔ خیر یہ لیکچر ہوا ۔مہمانان گرامی کی صف اول میں سید منصور عاقل بھی تشریف فرما تھے۔لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ لیکچر اور سوال جواب کے سیشن کے بعد خوش نظر نہیں آئے ۔ادھر ہمارے وائس چانسلر صاحب تھے، کہ؛ جنہوں نے پورا خطبہ اسٹیج پر بیٹھ کر سماعت کیا تھا، اور خطبہ کا پمفلٹ بھی کہیں کہیں سے پڑھ رہے تھے، لیکچر کے اختتام پر میرے کان میں کہنے لگے کہ ڈاکٹر کامران آپ کو پمفلٹ پر لکھوانا چاہیئے تھا کہ ادارے کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔مجھے ہنسی آ گئی ۔کہنے لگے کہ کیا میں اب یہ کہہ دوں کہ ادارے کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔میں نے انہیں کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بہت اعلی خطبہ ہے، ان مباحث کو سمجھنے کے لیے زیادہ مطالعے کی ضرورت ہے۔میں جانتا ہوں کہ آپ ان باتوں کو سمجھتے ہیں ، چلیئے اب ہم اس خطبے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور پھر ساتھ ہی سامعین کو سوالات کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد وی سی صاحب اچھا بچہ بن کر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ لیکن سید منصور عاقل صاحب چپ چاپ نہیں بیٹھے،انہوں نے الاقربا کے اگلے شمارے میں ” اقبال کا تصور پاکستان اور فرزند اقبال کے خیالات” کے عنوان سے ایک طویل اداریہ تحریر کیا۔ جس میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیکچر پر اپنی معروضات اور اعتراضات کو تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے اداریے میں لکھا تھا کہ ؛”۔ ہمارے لیے سر دست انتہائی تشویش و اضطراب کا سبب یہ ہے کہ مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال کے فرزند ارجمند محترم ڈاکٹر جاوید اقبال نے جن کے وراثتی و اکتسابی علم و دانش کے پیش نظر ان کا حق ہے کہ انھیں حکیم الامت کے افکار و نظریات کا معتبر شارح و مفسر سمجھا جائے، اپنے حالیہ خطبات کے ذریعہ جو موصوف نے اسلام آباد کی دو معروف جامعات ” علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی میں ارشاد فرمائے، اہل علم وخبر کوسخت ذہنی و روحانی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ارشادات پر مبنی مطبوعہ پمفلٹ بعنوان اقبال کی نگاہ میں پاکستان کی اسلامی ریاست مثالی سیکولر ریاست کیسے؟ سامعین میں تقسیم کرایا گیا تھا جس کا ایک نسخہ ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ ”اس اختلاف رائے کے باوجود وہ ہماری دعوت پر ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیکچرز سننے کےلئے ضرور تشریف لاتے تھے۔ سید منصور عاقل کثیر التصانیف دانشور تھے ، حرف محرمانہ (1994) ، گہوارہ سخن (شعری مجموعہ) 1993 ، برگ سبز(ادبی تحقیق) 1992 ، حرف بہ حرف( نقد و نظر)1981 ، مبارک نامہ(شعرفارسی ، انتخاب ،1972 ، اور خامہ خونچکاں اپنا( قومی شاعری،انتخاب)1965 چند نمایاں تصانیف ہیں۔ سید منصور عاقل کا آبائی تعلق اتر پردیش کے معروف اور مردم خیز ضلع بلند شہر کے قصبہ گلاوٹھی سے تھا۔ وہاں سے ہجرت کرکے وہ دہلی سے آدھ گھنٹے کی فضائی مسافت پر واقع بہاولپور شہر میں آباد ہوئے ، جہاں سے بسلسلہ ملازمت لاہور اور پاکستان کے دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں قیام پذیر ہو گئے ۔یہاں پہلے سیکٹر ایف ٹن میں رہتے تھے ،بعد میں ایف ٹن والا مکان بیچ کر سیکٹر جی الیون میں ایک نیا گھر خرید کر رہنے لگے۔اس نئے مکان میں بھی ان کا کتب خانہ ، دفتر ،جسے میں کارگاہ کہا کرتا تھا،جہاں بیٹھ کر اور کتابوں کی صحبت میں وقت گزار کر وہ راحت ، بے پایاں مسرت اور ذہنی سکون کشید کیا کرتے تھے۔ایسی تہذیب اور ایسے تہذیبی نمائیندے رخصت ہوئے جارہے ہیں۔میل ملاقات میں شائستگی اور تسلسل کا اہتمام، رابطے میں سبقت کی عادت نے ان کو اک جہان کا محبوب بنا رکھا تھا، ایسی ششتہ اردو بولتے کہ سن کر جی خوش ہو جاتا۔ وہ اپنے عہد ، اپنی سوچ اور اپنی دنیا کے دانشور اور دانش جو تھے،زندگی جہد مسلسل اور کامیابیوں سے عبارت تھی۔ آخر آخر میں وہ بھول جانے کے عارضے میں مبتلا ہو گئے تھے ، یادداشت متاثر ہو جائے تو دل و دماغ کی پررونق محفل ویران ہو جاتی ہے ۔ انہیں موجودہ کے عوض پرانی باتیں یاد آتی تھیں، کھانے پینے سے رغبت بالکل ختم ہوگئی تھی ،جس کا نقصان ان کی صحت کو ہوا،وہ جسمانی طور بے حد کمزور ہوگئے تھے۔ اور قیاس چاہتا ہے کہ ان کی رحلت کا باعث یہی بدنی کمزوری بنی۔اب وہ جس زندگی کا حصہ بنے ہیں ،وہاں قوی کا اضمحلال اور عناصر کا عدم اعتدال کوئی معنی نہیں رکھتا،وہاں یقینی طور پر وہ اردو کے کلاسیکی شعرا کی محفل سخن میں مودب بیٹھے حضرت میر تقی میر کے اس شعر پر سر دھن رہے ہوں گے؛
نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر
کہیں میر دل کو دوانے لگا