وزیراعظم پاکستان نے اب ایک نئی بات کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لائے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں، پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی اکھاڑ پچھاڑایک کلچر کی صورت میں بدل چکا ہے۔ آئین کے مطابق منتخب ہونیوالی حکومت کو پانچ سال کاعرصہ دیاجاتاہے مگر کوئی بھی حکومت اب تک پانچ سال پورے نہیں کرپائی اوراڑھائی تین سال یاچارسال بعدفارغ ہوجاتی ہے جس کے بعد معاشی ترقی کاپہیہ اورجاری پروگرام ازحدمتاثرہوتے ہیں،سٹاک ایکسچینج گرجاتاہے ، باہرسے آنیوالی سرمایہ کاری غیریقینی صورتحال کی وجہ سے رک جاتی ہے اور ملک کے اندرمہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔سابقہ حکمرانوں کابھی یہی موقف تھا اور وہ کہتے تھے کہ حکومت کو آئینی مدت پور ی کرنے دی جائے مگر ان پر جو الزامات لگائے گئے وہ قوم کے سامنے کھل کر تو نہیں آئے تاہم کہاجاتاہے کہ سابق حکومت نے خارجہ معاملات میں جو تباہی کی وہ بیان کرنے کے قابل نہیں اور اس حکومت کو سیکیورٹی رسک قرار دیکراسے فارغ کیاگیاجس کے بعدموجود ہ حکومت برسراقتدارآئی ۔گزشتہ روز اسلام آباد میں اراکین پارلیمنٹ سے خطاب میں وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ حکومت کو گزشتہ ایک برس کے دوران انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اتحادیوں نے ہمت نہیں ہاری اور ہمیں اپنی معیشت ٹھیک کرنے کیلئے انقلابی سرجیکل آپریشن کرنا ہوگا،ہم نے یہ سفر مخلوط حکومت کا 11 اپریل 2022کو آغاز کیا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کے زعما نے مجھے اعتماد کا ووٹ دیا اور اس اعتماد کا شکریہ ادا کرنے کےلئے الفاظ نہیں ہیں۔ہمیں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ناقابل بیان ہیں، ہمیں اندازہ تھا کہ صورت حال خاصی خراب ہوچکی ہے، ہمیں علم تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ کے ساتھ معاملہ بہت دور تلک چلا گیا اور بالکل ٹوٹنے والا ہے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ کئی سال سے دن رات چور ڈاکو کا منترا کرکے پاکستان میں نفرت، حقارت اور زہر گھولا گیا، اس کے نتائج بے پناہ تباہ کن تھے اور ہیں اور کافی عرصے تک رہیں گے لیکن خدا کرے ہماری حکمت عملی سے یہ حالات بہتر ہوجائیں۔ سیلاب کی تباہ کاری آئی، تاریخ کا سب سے بدتر مہنگائی کا طوفان نے ہمیں آدبوچا اور مہنگائی کے بوجھ سے غریب آدمی کی حالت غیر ہوگئی۔ سیاسی افراتفری جو باقاعدہ ایک شیطانی اور سازشی ذہن کے ساتھ پیدا کی گئی، آج لانگ مارچ ہو رہا ہے، آج دھرنا ہو رہا ہے، آج فلاں جگہ گھیراو¿ ہورہا ہے، فلاں کو چور ڈاکو کہا جا رہا ہے اور گالی دی جا رہی ہے، دنیا میں کوئی بھی ملک یا ریاست میں سیاسی استحکام آنے تک ترقی کا نہیں سوچا جا سکتا ہے۔عمران خان اور اس کی حکومت نے خارجہ معاملات میں وہ تباہی کی جو بیان نہیں کی جاسکتی، دوست اور برادر ممالک کے زعما نے خود بتایا کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا اور ہمارے ساتھ یہ باتیں کی گئیں، یہ باتیں اب راز نہیں کہ وہ کون تھا جس نے دوست ملک کو کہا کہ آپ کے بغیر کشمیر کا معاملہ حل کریں گے اور دوسرے ملک سے کہا کہ آپ کی مدد کی ضرورت نہیں اور چین پر الزام تراشی کی گئی۔نیراسلام آباد میں بارہ کہو بائی پاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج سے دس بارہ ماہ پہلے بارہ کہو انڈر پاس منصوبے کا پلان بنایا گیا تھا، پہلے بارہ کہو کا منصوبہ سی ڈے اے کے حوالے کیا، پھر این ایل سی کے حوالے کر دیا گیا، بارہ کہو بائی پاس کے منصوبے کیلئے پہلا چیلنج زمین کا حصول تھا، یہ منصوبہ بہت پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا کیونکہ ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کیلئے بارہ کہو سے گزرنا محال تھا۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بعض اوقات مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، آج وقت ہے ہم سب ملکر پاکستان کو آگے لیکر جائیں، مشکلات ہیں اور مزید آئیں گی، ملک و قوم کی خوشحالی کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، 75سال سے وسائل کی بندر بانٹ سب کے سامنے ہے۔قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے بارہ کہو میں بائی پاس منصوبے کا افتتاح کیا۔منصوبہ 6ارب 25 کروڑ روپے کی لاگت سے دس ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کیا گیا، منصوبے پر کام گزشتہ سال اکتوبر میں شروع کیا گیا تھا۔منصوبے میں 5.4 کلومیٹر طویل بائی پاس اور 1350 میٹر لمبا اوور ہیڈ برج شامل ہے، یہ بائی پاس مری، گلیات اور آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کو سہولت فراہم کریگا۔
ایران کے ساتھ تجارتی حجم بڑھانے کافیصلہ
ایران پاکستان کابرادرہمسایہ دوست ملک ہے جس نے ہرمشکل اورآڑے وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے دونوں ممالک کے بیچ میں باہمی تجارت گزشتہ پچھترسالوں سے چلی آرہی ہے مگر کچھ سیاسی مصلحتوں کے تحت اس تجارت کے حجم میں اضافہ نہیں کیاجاسکا اوراس کے پیچھے شاید کچھ مغربی ممالک کادباﺅبھی ہوکیونکہ ایران سے سستی گیس کی خریداری کامعاہدہ سابق صدر زرداری کے دور میں کیاگیاتھا اورایران کے علاقے میں گیس پائپ لائن کی تکمیل بھی ہوگئی تھی مگر بعد میں آنیوالی حکومتوں نے اسے سردخانے میں ڈال دیاجس کے باعث یہ منصوبہ آج تک تعطل کا شکار ہے اس التواءکی وجہ سے پاک ایران تعلقات میں سردمہری آئی اور کچھ دوریاں پیداہوئیں مگر اب موجودہ حکومت ایران کے ساتھ اپنے تجارتی حجم کو بڑھانے کی خواہشمند ہے ۔اسی حوالے سے پاکستان اور ایران کے درمیان 5سالہ اسٹریٹجک تجارتی معاہدہ ہوگیا، دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارت کو 5 ارب ڈالر سے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ میں بلاول بھٹو اور ایرانی وزیرِ خارجہ نے معاہدے پر دستخط کیے۔بعدازاں پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی،اس موقع پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے کم و بیش 15 مہینے قبل حکومت سنبھالی،جون میں ایران کا پہلا دورہ کیا تھا، ایران کے ساتھ برادرانہ اور تاریخی تعلقات ہیں، گوادر میں بجلی کی فراہمی میں ایران نے بہترین کردار ادا کیا، ایران کے ساتھ مختلف شعبوں میں مزید تعاون مستحکم کرنا چاہتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اسٹریٹجک تعلقات ہیں، ایرانی ہم منصب کے ساتھ مختلف معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ تجارت، معیشت، انرجی و آرٹ میں باہمی تعاون کے فروغ کےلئے متعدد تجاویز زیر غور ہیں، ہم نے 2023سے 2028تک کےلئے باہمی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی ہے۔ معاہدے سے باہمی تجارت 5ارب ڈالرز تک بڑھے گی۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں میں قید افراد کے مسائل بھی زیر بحث آئے اور سزا یافتہ ایرانی قیدیوں کو معاہدے کے تحت ایران کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام مچھیروں پر عائد جرمانے ختم کر کے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، دونوں ممالک نے یہ طے کیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا جائے۔ ایرانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے درپیش چیلنجز پر بھی بات چیت کی اور کشمیر میں ہونےوالے مظالم کا بھی ذکر کیا۔
غیرقانونی پٹرول پمپوں کاانکشاف
وطن عزیز میں سمگل شدہ پٹرولیم مصنوعات کی کھلے عام فروخت کاسلسلہ جاری وساری ہے ، خاص طورپراندرون سندھ ،بلوچستان اور پنجاب کے شہروں ڈی جی خان، راجن پور اورملتان میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔اس دھندے کو ضلعی انتظامیہ کی پوری سرپرستی حاصل ہوتی ہے جس کے باعث قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچتاہے اورآتشزدگی کے واقعات کے خطرات بھی رہتے ہیں۔ گزشتہ روزآڈیٹرجنرل آف پاکستان کی رپورٹ نے اوگرا کی بے ضابطگیوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا،ملک بھرمیں سات ہزارغیرقانونی پٹرول پمپس چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی اوراسمگلنگ میں اوگرا کو سہولت کار قراردیدیا گیا۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی نگرانی کرنے والا ادارہ اوگرا خود ہی ان کا سہولت کاربن گیا،کئی تیل کمپنیوں کو گنجائش سے زیادہ تیل ذخیرہ کرنے کی اجازت دی۔ کئی کو سٹوریج کی صلاحیت پوری کیے بنا ہی لائسنس بانٹ دئیے گئے۔کئی تیل کمپنیوں نے گنجائش سے زائد غیرقانونی پٹرول پمپ بنا رکھے ہیں۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں غیرقانونی طورپرتیل کی خریداری اورفروخت میں ملوث ہیں۔ اوگرا نے کوٹے سے زائد ڈیزل درآمد کرنے کی اجازت دے کرمقامی ریفائنریزکو بھی نقصان پہنچایا۔پورے ملک میں بوتلوں اور ڈرمزمیں پٹرول کی فروخت جاری ہے۔غیرمعیاری ٹینکوں میں پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کو بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔