Site icon Daily Pakistan

پاکستان ہے تو ہم ہےں۔!

یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند روز بعد وطن عزیز کے طول و عرض میں پورے قومی جذبے کے ساتھ آزادی کا تہوار منایا جا رہا ہے اسی تناظر میںسنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ کوئی راز کی بات نہےں کہ وطن عزیز میں کچھ حلقے تسلسل کےساتھ پاکستان اور قومی سلامتی کو حرف تنقید بنائے ہوئے ہےںاور ڈیجٹیل دہشت گردی کی مکروہ مہم چھیڑے ہوئے ہےں ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم ایمان ،اتحاد اور تنظیم کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ملک میں جاری ہر قسم کی سازشوں پر قابو پانے کےلئے اپنا قومی کردار ادا کرئیں کیوں کہ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ اصل خطرہ کسی بیرونی یلغار سے نہےں بلکہ داخلی انتشار سے ہے ۔اس حوالے سے مذہبی طبقات پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ایسے میں امید کی جانی چاہےے کہ تمام مذہبی اور سیاسی طبقات ملکی ترقی اور استحکام کی خاطر اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر محفوظ اور مظبوط پاکستان کےلئے پنا بھرپور حصہ ڈالیں گے۔ سبھی جانتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں پاکستان مختلف نوع کے معاشی اور سیاسی دباﺅ کا شکار ہے ۔ایک جانب حالیہ سیلاب اپنی بدترین تباہ کاریوں کے ساتھ موجود ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتیںاپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور اس تناظر میں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے طرز عمل کو کسی طور قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مبصرین کے مطابق پاکستان اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم بین الاقوامی اداروں پر یہ بات واضح کرچکا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے خوشگوار تعلقات قائم نہیں کرسکتا۔ جب تک مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا تب تک خطے میں سکیورٹی مسائل حل نہیں ہوسکتے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ہیں اور ان کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے امکانات اس مسئلے کے حل تک موجود رہیں گے۔ اسی تناظر میں اقتصادی ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ گزشتہ برس جس طور آئی ایم ایف کے معاملات کو غلط ڈھنگ سے سلجھانے بلکہ الجھانے کی کوشش کی گئی اس کے نتیجے میں یہ معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے اور یہ کوئی راز کی بات نہےں کہ معاشی اور سیاسی استحکام کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ معاشرتی استحکام کی بنیاد بھی معاشیات سے ہی وابستہ ہوتی ہے ۔ کسے علم نہےں کہ غربت اور افلاس جب حد سے بڑھ جائے تو دیگر بہت سی قباحتیں خود بخود جنم لے لیتی ہےں یوں سیاسی ،معاشی اور معاشرتی استحکام لازم و ملزوم ہےں۔ دوسری جانب کچھ عرصہ قبل پاکستان اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے مابین ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جس طور بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد سے بھارت بری طرح بوکھلا گیا ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ پاک وزیر خارجہ نے اپنے جرمن ہم منصب کے ہمراہ جس انداز میں بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا وہ اپنی مثال آپ ہے تبھی تو نیو یارک میں معروف امریکی تھنک ٹینک کے محقق ولسن سینٹر نے کہا تھا کہ بھارت کو اس تناظر میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاتھا ۔ اس سے قبل پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے آزاد جموں و کشمیر کا دورہ کیا اور مختلف حکومتی شخصیات سے ملاقات کی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دورے کے دوران انھوں نے اپنی گفتگو میں اعلانیہ طور پر ” آزاد جموں و کشمیر“ کے الفاظ استعمال کیا جس سے بھارتی میڈیا میں صف ماتم بچھی گئی تھی ، ہندوستان اس تناظر میں اتنا سیخ پا ہے کہ اس نے امریکی سفیر کو بلا کر باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا کریا تھا۔ علاوہ ازیں معاشی ابتری کی بات کی جائے تو وفاقی وزیر برائے موسمیات کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔انھوںنے کہا کہ عالمی بینک نے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو 40 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے اور عالمی بینک نے بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مزید 90 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے ۔ ہم عالمی دنیا کو اپیل کر چکے ہیں کہ حقیقی نقصان ان تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے، گھروں، بنیادی ڈھانچے، سڑکوں اور فصلوں کو جو نقصان ہوا ہے اس سے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ 10 اکتوبر 2023 کو وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے تھرکول بجلی منصوبے کا افتتاح کیا تھا اور اس موقع پر وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ اس منصوبے کو ” شہباز سپیڈ“ کیساتھ مکمل کیا جائے گا۔ مختلف مسائل کی بازگشت میں یہ خبر بہرحال امیدکا خوشگوار جھونکا ہے۔ توقع کی جانی چاہےے کہ آنےوالے ایام ملک وقوم کےلئے خوشحالی کا سبب بنیں گے اور پاکستان انشااللہ عالمی افق پر امید کا نیا ستارہ بن کر ابھرے گا ۔

Exit mobile version