دیتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام علاقے میں امن و استحکام کی ضمانت ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ ستمبر 1972 میں ” میکسیکو“ میں سولہویں یو این اٹامک انرجی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پہلی بار پاکستان کے نمائندہ’ منیر احمد‘ نے جنوبی ایشیاءکو جوہری اسلحے سے پاک قرار دینے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ جس طرح لاطینی امریکہ کو نیوکلیئر ویپن فری زون قرار دینے کی بابت ایک معاہدہ ” TLATELOLCO TREATY “ ( یہ معاہدہ 14 فروری 1967 کو ہوا جس کے تحت لاطینی امریکہ میں جوہری ہتھیار ممنوعہ قرار پائے ) ہے ۔ اسی طرز پر جنوبی ایشیاءکے ضمن میں بھی کوئی معاہدہ طے پانا چاہیے ۔ اس کے کچھ روز بعد 23 نومبر 1972 کو وزیر اعظم پاکستان ” ذولفقار علی بھٹو “ نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کرتے کہا تھا کہ توانائی کے حصول کی خاطر نیو کلیئر انرجی پاکستان کی ضرورت ہے مگر اس معاملے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونا چایئے ۔ اس کے کچھ عرصے بعد بھارت نے 18 مئی 1974 کو ایٹمی تجربہ کیا جسے بھارتی سائنسدانوں نے ” Smiling Buddha” کا کوڈ نام دیا جبکہ انڈین آرمی نے اس ضمن میں آپریشن ” ہیپی کرشنا “ کا کوڈ استعمال کیا ۔ دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ نے اسے ” پوکھرن ون “ کہا کیونکہ راجستھان میں جیسلمیر کے مقام ” پوکھرن “ میں یہ ایٹمی تجربہ کیا گیا ۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 29 ویں اجلاس میں 28 اکتوبر 1974 کو پاکستان نے ایک باقاعدہ قرار داد پیش کی ۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ یو این سیکرٹری جنرل ساﺅتھ ایشیا کو نیوکلیئر ویپن فری زون قرار دینے کے حوالے سے متعلقہ ممالک کا اجلاس طلب کریں ۔ جواب میں بھارت نے تعمیری رویہ اختیار کرنے کی بجائے اسی اجلاس میں اپنی جانب سے قرار داد پیش کی جس میں کہا گیا کہ صرف ساﺅتھ ایشیاءکی بجائے خطے کے سبھی ممالک کو اس دائرہ کار میں لایا جائے ۔ در اصل اس بھارتی موقف کا مقصد پاکستان کی قرار داد کی نفی کرنا تھا ۔ جنرل اسمبلی نے دونوں قرار دادیں” اڈاپٹ “ کر لیں ۔ بحث کے دوران روس نے پاکستانی قرار داد کی مخالفت اور بھارت کی حمایت کی جبکہ چین نے پاکستان کے حق اور اڈیا کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ۔ برطانیہ ، فرانس اور امریکہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہے ۔
1975 اور 1976 میں بھی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان نے یہ قرار داد منظور کر نے پر زور دیا ۔اگلی نمایاں پیش رفت 1977 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سامنے آئی جب بھارتی قرار داد کو ناقابلِ سماعت دیتے ہوئے ” ڈراپ “ کر دیا گیا جبکہ پاک قرار داد کے حق میں امریکہ ، کینیڈا اور جاپان نے بھی ووٹ دیئے ۔ انتہائی اہم امر یہ ہے کہ 1977 کے اجلاس میں پہلی بار بھارت نے بھی پاکستان قرارداد کے خلاف ووٹ دینے کی بجائے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی اور اس کی غالباً بڑی وجہ یہ تھی کہ تب ” مرار جی ڈیسائی “ کی زیر قیادت بھارت میں پہلی بار کوئی غیر کانگرسی حکومت قائم ہوئی تھی جس کا رویہ نسبتاً اعتدال پر مبنی تھا ۔ تب واجپائی وزیر خارجہ تھے ۔ 1980 تک پاکستان اپنے اس موقف کو دنیا سے منوانے کی بھر پور جدوجہد کرتا رہا ۔ تبھی تو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے پاکستانی صدرنے جنوبی ایشیاءکو کو” نیوکلیئر ویپن فری زون “ قرار دینے پر بھر پور اصرار کیا ۔ فروری 1985 میں یو این نے قدرے فعال کردار ادا کرتے ہوئے 21 ممالک پر مشتمل ایک پینل ترتیب دیا جس میں پانچوں مستقل ارکان بھی شامل تھے اور اس پینل سے کہا گیا کہ ساﺅتھ ایشیاءکے علاوہ مڈل ایسٹ ، بلقان ریجن ، شمالی یورپ ، افریقا اور ساﺅتھ پیسیفک کے خطوں کو جوہری ہتھیاروں سے پاک قرار دینے کی جانب عملی پیش رفت کی جائے مگر کچھ عرصے بعد اس گروپ کے سیکرٹری جنرل نے اعلان کر دیا کہ انڈیا اور ارجنٹائن جیسے ممالک اس ضمن میں خاطر خواہ تعاون نہیں کر رہے اسلئے اس گروپ کو ختم کیا جاتا ہے ۔
پاکستان نے اس ضمن میں محض یو این کے پلیٹ فارم سے ہی کوششیں نہیں کیں بلکہ امن کی یہ پہل اقوام متحدہ سے باہر بھی جاری رکھی تبھی تو مارچ 1976 میں شاہ ایران کے دورہ لاہور کے موقع پر بھٹو نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا ۔ علاوہ ازیں 1976 ہی میں کینیڈا کے ساتھ جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ،اس میں بھی پاکستان کے اس موقف کو نمایاں جگہ دی گئی ستمبر 1985 میں پاکستانی اٹارمک انرجی کمیشن کے چیئر مین نے مڈل ایسٹ ، ساﺅتھ ایشیاءاور افریقہ کو کو” نیوکلیئر ویپن فری زون “ قرار دینے کی تجویز پیش کی ۔دوسری جانب بھارت نے پاکستان کو بنجر کرنے کے لئے آبی جارحیت کا جو خوف ناک سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کھلے عام پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اپنانے کا ایک سے زائد مرتبہ اعتراف کر چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت جوہری حملے کے حوالے سےNO FIRST USE کی باتوں پر اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے مگر پاکستان بجا طور پر ہندوستانی منفی عزائم کے پیش نظر اس بھارتی جال میں نہیں آ رہا ۔ پاکستان کے وسائل اتنے نہیں کہ وہ روایتی ہتھیاروں پر بھارت کی مانند بے حساب خرچ کر سکے اس لئے بھی جوہری ہتھیار پاکستان کی سلامتی کے لئے اشد ضروری ہیں ۔