سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ بات خوش آئند ہے کہ پنجاب حکومت عوام کی ترقی کےلئے خاصی سرگرم نظر آتی ہے تبھی تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حافظ آباد میں کسان کارڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے دن رات کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ غلط نظریہ ہے کہ کسان سے حکومت گندم خریدتی ہے بلکہ کسان سے حکومت نہیں آڑھتی گندم خریدتا ہے اور مہنگے داموں حکومت کو فروخت کرتا ہے۔ اس بار کسانوں سے گندم نہ خریدنے پر اپنوں اور غیروں سے بلاتفریق تنقید سننے کو ملی۔ لیکن جہاں مجھے عوام کی روٹی کا خیال کرنا ہے وہاں کسان بھائیوں کا بھی خیال کرنا ہے۔اسی ضمن میں مریم نواز نے مزید کہا کہ مجھے ایسی پالیسیز بنانی ہیں کہ میرے کسان بھائیوں کو نقصان نہ ہواور کسان کارڈ اس سلسلے کی سب سے بڑی کڑی ہے۔ کسان کارڈ کے ذریعے ہم براہ راست کسان تک پہنچ رہے ہیںاور بیچ میں کوئی مڈل مین، کوئی آڑھتی اور کوئی بلیک میلر نہیں ہوگا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اسی حوالے سے کہا کہ میرا مقصد تھا کہ کسان بھائیوں کو ان کی محنت کا پورا صلہ ملے اور انہیں کسی آڑھتی اور مڈل مین کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہونا پڑے کیوں کہ حکومت نے کبھی کسان سے گندم نہیں خریدی بلکہ کسان تو اونے پونے داموں آڑھتی کو فصل بیچ دیتا ہے۔ تاکہ اسے اگلی فصل کے لیے قرضہ مل جائے۔ اور آڑھتی کسان کی محنت میں اپنا منافع شامل کر کے وہ گندم حکومت کو بیچ دیتا ہے۔ اسی ضمن میں پنجاب کی انتظامی سربراہ نے مزید کہا کہ یہاں جس طرح پانچ پانچ سو روپے میں باردانہ بکتا ہے۔ غریب آدمی تو اتنے پیسے نہیں دے سکتا بلکہ یہ امیر لوگ ہوتے ہیں جو کسان کے نام پر ایسا کرتے ہیں۔ حکومت پہلی مرتبہ براہ راست کسانوں تک پہنچی ہے اور 450 سے 500 ارب کا کسان پیکیج لانچ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کسان کارڈ کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ روپیہ فی فصل بلاسود قرضہ دیا جارہا ہے۔ اور کسان ڈیڑھ لاکھ روپیہ لے گا اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہی واپس کرے گا۔ اسے ایک روپیہ بھی سود نہیں دینا پڑے گا۔اسی ضمن میں انہوں نے اپنی بات مزید آگے بڑھاتے کہا کہ گندم نہیں خریدی تو کہا گیا کہ کسان ناراض ہو گیا ہے۔حالانکہ اگر اگر کسان ناراض ہو گیا ہوتا تو کسان کارڈ کے لیے 12 لاکھ سے زیادہ درخواستیں کیوں موصول ہوئیں ۔
ٹریکٹر اسکیم کے لیے 15 لاکھ سے زائد درخواستیں کیوں موصول ہوئیں۔ ہم نے 5 لاکھ کسان کارڈ کا بجٹ رکھا تھا مگر کسانوں نے پنجاب حکومت پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے پنجاب کارڈز کا ہدف ساڑھے 7 لاکھ کر دیا ہے اور حکومت 4 لاکھ سے زائد کسان کارڈز کا اجرا کرچکی ہے اور یہ کارڈز بیج، کیڑے مار ادویہ اور کھاد کی مد میں جاری کیے گئے ہیں۔اسی تناظر میں انہوں نے مزید کہا کہ آڑھتیوں سے گندم نہ خریدنے کے فیصلے سے کھاد، ڈی اے پی اور بیج کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ اور کسان کے منافع میں اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں یوریا کی بوری 6 ہزار روپے سے 4400 پر آ گئی جبکہ ڈی اے پی کی بوری 13 ہزار سے 11 ہزار 900 پر آ گئی ہے۔معاشی اور اقتصادی ماہرین نے اس امر کو بھی خاصا حوصلہ افزا قرار دیا ہے کہ اس سے چند روز قبل گرین ٹریکٹر سکیم کے جائزہ اجلاس کے موقع ڈپٹی ڈائر یکٹر زراعت توسیع نے بتا یا کہ ضلع میانوالی کیلئے 230گرین ٹریکٹر زکا کو ٹہ مختص کیا گیا ہے جس کیلئے 3446درخواستیں مو صول ہوئی ہیں اور سکروٹنی کے دوران معیار پر پورا نہ اتر نے والی 179امیدواروں کی درخواستوں کو مسترد کردیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کسان کا رڈ کی رجسٹریشن اور تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ضلع بھر کے 19 ہزار سے زائد کسانوں کو رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے اور دس ہزار کسان کارڈ مو صول ہو چکے ہیں جن کی تقسیم کا سلسلہ جارہے۔ اسی حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ضلع میانوالی میں 32ہزار کسان رجسٹرڈ کر نے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے اجلاس سے خطاب کر تے ہو ئے کہا کہ گرین ٹریکٹر اور کسان کارڈ سکیم کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کا انقلابی اقدام ہے۔ انھوں نے محکمہ زراعت توسیع کے افسران کو ہدایت کی کہ گرین ٹریکٹر سکیم کی درخواستوں کی مکمل سکروٹنی رپورٹ جلد پیش کی جا ئے اور کسان کارڈ کی رجسٹریشن اور تقسیم کے عمل میں مزید تیزی لا ئی جا ئے۔معاشی ماہرین نے اس ضمن میں رائے ظاہر کی ہے کہ بادی النظر میں پنجاب کی صوبائی حکومت عوامی فلاح و بہود کے معاملات میں خاصی سرگرم نظر آتی ہے توقع کی جانی چاہےے کہ ان اچھے اقدمات کا سلسلہ مزید موثر بنایا جائےگا۔