کئی سال پہلے پروفیسر ڈاکٹرساجد خان خاکوانی صدر نشین ،شعبہ علم وادب جماعت اسلامی حلقہ ا سلام آباد نے کسی گفتگو میں کہا تھا کہ مغرب کے دانشورں نے مسلم دانشورں کی کتابوں کے تراجم کر کے ٹھگی سے اپنے ناموں سے منسوب کر لیا ہے۔اس ٹھگی کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنی کتاب” یورپ پر اسلام کے احسان” میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مجھے اُس وقت سے اس کتاب کی تلاش تھی، جو چند دن پہلے فیس بک نے پوری کردی۔اس کتاب کا مطالعہ کیا اور حسب عادت آج اس پر تبصرہ قارئین کی نظر ہے۔
میں مغرب کا مسلمانوںکے ساتھ تعصب پر بڑا شاکی ہوں
مجھے مغرب کی تہذب سے بھی نفرت ہے
اس کی بنائی ہوئی انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف اپنے لوگوںلیے ہیں ۔مسلمانوں کیلئے نہیں۔اس کا ثبوث غزہ کی جنگ ہے۔ جس میںانسانی حقوق فلسطینیوں کو حاصل نہیں۔ان کا سیکسی معاشرہ زنا میں غرق ہے۔بوئے فرنڈ کی قبیح حرکت سے پورے معاشرے میں اسی فیصد پیدا ہوے والے بچے حرامی ہیں۔ ان میں فعل قوم لوط رائج ہے۔ کلب لائف کی وجہ سے عورتیںکہتی ہیں ہم بچے نہیں پیدا کریں گی ۔اس سے ہماری کلب لائف ڈسٹرب ہوتی ہے۔ عورت کے حقوق سلب کرلیے گئے ہیں۔ ملکہ گھرکی بجائے عورت کوشمع محفل بنا دیا گیا ہے۔ مغرب کا کوئی بھی پروڈکٹ اُس وقت تک فروخت نہیں ہو سکتا، جب تک ایک نیم عریاں عورت کی تصویر نہ لگائی جائے۔ مخلوط ڈانس کلبوں میں روشنی بند کر دی جاتی ہے۔ جس کے ہاتھ جو عورت آجائے وہ اس کی ہو جاتی ہے۔ شراب اور فحاشی عام ہے۔ میں مغرب کے معاشرے پر اپنی درجن بھر کتابوں میں تنقید کر چکا ہوں ۔ علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال شاعر اسلام نے مغرب کی تہذیب پر اپنے اشعار کیا خوب کہا ہے:۔
تمہاری تہذیب اپنے ہی خنجر سے خود ہی خود کشی کریگی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
کتاب”یورپ پر اسلام کے احسان” پرحرفِ تعارف میں اٹک گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اشفاق علی خان مسلم نوجوانوں کو مخاطب ہو کر یورپ کے دانشوروں کے قول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”تم کچھ نہیں ہو۔ تمھارے آبا کچھ نہ تھے۔تم وہم پرست ہو ۔ تمھارا کردار پست ہے۔ تمھاری عظمت ایک جھوٹا خواب تھا۔ تمھارے بادشاہ اوباش، تمھارے عالم جاہل، تمھارے رہنما ناکارہ اور ٹھگ تھے۔ ہماری ذہنی غلامی سے نکلنے کا خیال تک دل میں نہ لائو۔تمھاری مائیں، بہینیں، بیٹیاں ،بچے تنکا تنکا چن چمن کر جانورں کا چارہ جمع کریں۔ تم ہل چلائو اور کپاس چنو، پٹ سن اُگائو۔ ہمیں کم نرخوں پر فروخت کرو۔ ہم کپڑا تیار کر کے تمھیں ہی مہنگے دام تمھیں فروخت کر کے پیسا کمائیں۔تمھاری فولاد بنانے بھاری صنعت لگانے کی سکیمیں جہالت ہیں۔ احمق نہ بنو۔ لو یہ دس روپے ، مٹی کھودنے فصلوں کو پانی دینے میں صرف کرو” راقم مغرب کو اپنی جہالت کا دور یاد نہیں اور نہ ہی اس کا کہیں ذکر کرتا ہے؟اس کتاب کے حرف اوّل میںمصنف خودلکھتا ہے۔ مکار اقوم نے جب مسلمانوں کو غلام بنایا تو” ہمارے ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے ہماری شاندار تاریخ کو بگارڑدیا۔انبیاء کوساحر کہا۔ اولیا کو ٹھگ ، سلاطین کو اوباش اور علماء و حکما کو جاہل لکھا۔ اپنے بڑے بڑے لٹیروں چوروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ انگریز نے ہند کے مسلمانوںکو پڑھایا،اسلام بزرو شمشیر پھیلا۔ غزنوی لٹیرا تھا۔ اوررنگزیب متعصب تھا۔ مغڑب اپنے لیڈروں کے متعلق لکھتا ہے۔، کلائیو ڈِکٹرپن،اور کپٹن ڈریک جیسے چور انسانیت کے سب سے بڑے محسن تھے۔ اس قسم کی خرافات آج بھی ان کتابوں میں موجود ہیں جو آج بھی ہمارے پبلک سکولز میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ یورپ ے مسلمانوں کے اسلاف کو چور، لٹیرے اور اوباش کہا۔۔ ایسی لاکھوں کتابیں گھر گھر بانٹیں۔نکلس کی ” تاریخ ادب عربی” پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔ ا س میں ہمارے پیارے پیغمبرۖ اور ہمارے قرآن بارے غلط باتیں لکھی ہیں۔ جبکہ عرب مسلمانوں نے یورپ کے باشندوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ نشست برخاست کے آداب بتائے۔ کھانے پینے اور نہانے کا سبق دیا۔ ان کے ذہنوں کو اوہام و ابایل کے گرفت سے آزاد کیا۔ ان کے درس گاہوں میں علم کے دریا بہائے۔صدیوں ابن رشد غزالی سینا، رازی فرابی کے تراجم اٹلی ،فرانس اور سپین کی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جا رہے تھے۔ لیکن متعصبوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک کلمہ خیر کسی عیسائی کے قلم سے نہیں لکھا گیا۔مورخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد کو اور ہر انکشاف کاسہرا یورپین کے سر باندھ دیا ہے۔ مثلا قطب نما کی ایجاد ایک فرضی نام فلو یو کوجہکی طرف منسوب کر دی۔ الکحل کو ولے ناف کے آرنلڈ کو اور بارود کو بیکن کا موجد بنا دیا۔ماہر کیمیاجابر بن حیان کے ایک لاطینی ترجمہ کو کسی اپنی نام سے منسوب کر دیا۔ابن الجز کا زادء المسافر کا لاطینی ترجمہ قسطنطین کے نام کر دیا”۔ مصنف لکھتا ہے کہ علم دشمنی میں عیسائیت نے لاتعداد علماء و فلسفہ کو قتل کیا۔ دارالکتب جلائے۔ درسگائین بند کیں۔جرمنی میں ٧٥٠ء سے پہلے کسی کتاب کاسراغ نہیں ملتا۔فرانس میں ١٠٥٠ء تک چند مذہبی گیتوں کچھ جنگی نظموں کا سراغ ملتا ہے۔مصنف لکھتا ہے جہاں تک مسلمانوںکی کتابوںں سے محبت کی بات ہے تو امیر معاویہ نے ایک عیسائی سے طب کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرایا۔عباسی خلفاء نے دنیا کے ہر حصہ سے کتابوں کے انبار منگوائے۔جہاں بھر کے حکما و علما دربار خلافت میں طلب ہوئے۔ انہیں تصنیف و ترجمہ پر مامور کیا گیا۔ ان کے ساتھ امرا ء اور سلاطین بھی کتب خانوں اور رصد گاہوں میں جا بیٹھے۔قرطبہ سے سمر قند تک ہزارں درسگاہیں قائم کیں۔بقول ول ڈیوران جغرافیہ دانوں، مورخوں، منجموں، فقہیوں، محدثوں، طبیبوں اور حکیموں کے ہجوم سے سڑکوںپر چلنا مشکل تھا۔سلاطین نے اہل علم کو معاش سے فارغ رکھا۔ ان کو اتنے عطیات دیے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔خلیفہ ہارون الرشید کے طبیب خاص جبرائیل بن بخت یشوع کی صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ اس کاسالامہ اامدنی تینتالیس لاکھ بیس ہزار درم تھی۔عربوں کے دور میں ہر مسجد سے درس گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔عربوں کے کتب خانے کا ذکر کریں توقرطبہ میںستر دارالکتب تھے۔ ایک میں چھ لاکھ کتابوں تھیں جس کی فہرست جوالیس جلدوں میں تیار ہوئی تھی۔اسلامی تہذیب نے یوپ پر بڑا اثر ڈالا۔ یورپ کے لباس بدل گئے۔ طور طریقے تبدیل ہوگئے ۔ تعمیرات میں مشرقیت آ گئی۔ عورتوں نے نقاب اُڑھ لیے ان کا احترام بڑھ گیا۔ سسلی کے بادشاہ کا لباس اسلامی تھا۔مغرب میں کاغذ پہ پہلی تحریر عربی میں جاری ہوئی۔ راجر دون نے اسلامی لباس پر عربی آیت لکھوائی ۔ ویلم اوّل کے سکے پرعربی لکھی گئی۔ سسلی کے بادشاہ کے تمام خدمت گار مسلمان تھے ۔ برطانیہ ایک بادشاہ کے سکہ پر عربی کندہ تھی پرس و پال کے لباس عربی عبارت تھی۔ جرمنی میں ایک چار ١١٢٦ء میں تیار ہوئی اس پر عربی عبارت تحریڑ تھی۔ جرمن امپرر فریڈرکنے ابن رشد کی تصانیت منگوا کر ان کے نقول ہردرسگاہ میں رکھوائیں۔ چودہوں صدی میں اوکسفورڈاور پیرس میں عربی لازم تھی۔ جہاں تک عربی زبان سے یورپ نے کیا فاہدہ اُٹھا، توانگریزی زبان میں سیکڑوں لفظ عربی کے ہیں۔ ہسپانوی زبان میں عربی کے الفاظ موجود ہیں۔مالٹا کیزبان میں بھی ہزاروں الفاظ عربی کے ہیں۔ہالینڈ نے اندلسی پرتگالی الفاظ کی لغت تیار کیا تھاجو عربی سے مشتق ہیں۔اہل یورپ عربوں کے شاندار علوم اور تابدار تہذب سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ عربی بولنے اور لکھنے پہ فخر کرنے لگے۔سسلی کے ویلم دوم اور فردیک دوم عربی کے عالم تھے ۔سلطنت میں عربی مدرسے کھول دیے تھے ۔ جرمنی میں بھی عربی مدرسے کھلے گئے تھے۔ رانس سے برطانیہ آئے یہودی عربی کاعالم تھے۔ انہوں نے انگلینڈ میں عربی مدرسے کھلوائے۔ابراہیم عزرا طلیطلہ ایک یہودی تھا ۔ جو ١١٥٨ء لندن پہنچا اور برسوں وہاں عربی میں درس دیتارہا۔جرمنی کا عظیم القدر فلسفی البرس یگونس اور اٹلی مکا کا فلسفی پادری طامس ایکوناس عربی مدارس کے فارغ التحصیل تھے۔١٤٧٣ء میں طرانس کے بسدشاہ لوئیس یازدہم نے حکم دیا کہ فرانس کے تمام مدارس میں ابن رشد کی فلسفیانہ کتابیں پڑھائی جائیں۔ سپین کے ایک فلسفی کے افکار پر ایک یہودی اوس بران نے عربی میں ایک کتاب لکھی ۔پرتگال کے پرنس ہنری نے ایک عظیم بحری اکادمی قائم کی جس میں تدریس وتربیت کیلئے عرب اور یہودی علماء مقرر کیے۔یورپ میں پندرویں صدی میں کوئی ایسا مصنف نہیں تھاجو عربوں کا ناقل نہ ہو۔ پادری طامس، البرٹ بزرگ اور الفونس دہم وغیرہ یا تو عربوں کے شاگرد تھے یا ناقل۔البرٹ بزرگ نے جو کچھ پایا، ابن سینا ے پایا۔اور سینٹ طامس نے اپنا فلسفہ ابن رشد سے لیا۔ یہ تھی یورپ کی کہانی کتاب”یورپ پر اسلام کے احسان” کی زبانی۔ اللہ اسلام کو پھر سے عظمت عطا فرمائے۔ آمین
کتاب یورپ پر اسلام کے احسان

