کینیڈا میں ایک اور سکھ رہنما سکھ دول سنگھ (سکھا دونیکے) کے قتل کے بعد بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ سکھ دول سنگھ بھارت کو مطلوب خالصہ رہنماو¿ں کی فہرست میں شامل تھا جو بھارتی پنجاب کی پولیس کے افسران کی ملی بھگت سے کینیڈا فرار ہو گیا تھا اور سکھ رہنما ارشدیپ سنگھ (ارشا دالا) کا قریبی ساتھی تھا۔
بھارت نے خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد کینیڈا کے شہریوں کیلئے ویزا سروس معطل کردی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ کینیڈا کی ساکھ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور منظم جرائم کی محفوظ پناہ گاہ بن رہی ہے۔ کینیڈا نے بھارتی حکومت کی جانب سے کینیڈا میں مقیم بھارتی شہریوں کیلئے جاری کی گئی سفری ہدایات کو مسترد کردیاہے۔کینیڈین امیگریشن وزیر مارک ملر نے کہا ہے کہ کینیڈا دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں سے ایک ہے جو قانون کی حکمرانی سے چلتا ہے۔
انتہا پسند ہندوو¿ں نے نئی دہلی میں کینیڈین سفارت کاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔کینیڈین ہائی کمیشن نے تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں سیکیورٹی کی صورتحال پر گلوبل افئیرز کینیڈا نظر رکھے ہوئے ہے ۔ کینیڈین ہائی کمیشن نے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکومت ویانا کنونشن کے تحت سفارتکاروں کی سیکیورٹی یقینی بنائے۔ بگڑتی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر کینیڈین حکومت سفارت خانوں میں اسٹاف کی کمی پر بھی غور کررہی ہے۔
سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کا وطن خالصتان پنجاب سے علیحدہ بنایا جائے، اس تحریک کے آغاز کے بعد بھارت کی شمالی ریاست پنجاب میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں خونی بغاوت ہوئی تھی اور اس کا ہدف سکھ علیحدگی پسند تھے، اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کیا تھا اور بالآخر اس مہم کو دبا دیا تھا۔اس بغاوت کی وجہ سے کانگریس رہنما وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل بھی ہوگیا تھا جنہیں 1984 میں ان کے سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔
جب سے کینیڈا نے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ مودی سرکار تلملاہٹ کا شکار ہے اور اسے منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل پا رہی ہے۔تجزیہ نگار اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت ہر طرح کی اختلافی آوازوں کو بند کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے، صورتحال یہی رہی تو کینیڈین حکومت جلد اپنے بھارتی سفارت خانے بند کر دے گی۔ ماضی میں بھی مودی سرکار نے اسی طرح کے حربوں سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کر ڈالا تھا۔ مودی کے خلاف ڈاکومینٹری نشر کرنے پر بھارتی حکومت نے ٹیکس چوری اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے بھی مارے تھے۔
کینیڈا کی سکیورٹی انٹیلی جن سروس نے ٹروڈو حکومت کو 2017ءمیں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی سرگرمیوں سے خبر دار کیا تھا۔ بھارت سفارتی نیٹ ورک کے ذریعے کینیڈا کی ساکھ کمیونٹی کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔ وارننگ کے باوجود کینیڈین حکومت نے معاملہ دبا دیا۔ بھارتی سفارتکار خالصتان کے حامی کینیڈین سکھوں کو بلیک سائٹس میں ڈالنے کا کام کر رہے تھے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کینیڈا کے سیاستدانوں پر دباو¿ ڈالتی رہیں۔
مودی سرکار خصوصاً خالصتان تحریک سے اتنا ڈر گئی ہے کہ اب وہ ہزاروں میل دور واقع ممالک میں موجود ایسے افراد کو نشانہ بنارہی ہے جو سیاسی اعتبار سے بھارتی سرکار کے نظریات سے متفق نہیں ہیں۔ ہردیپ سنگھ نجر نے ایک آزاد ریاست خالصتان کی شکل میں سکھوں کے علیحدہ وطن کی حمایت کی تھی اور جولائی 2020 میں بھارت کی طرف سے انہیں دہشت گرد نامزد کیا گیا تھا۔
دوسری جانب امریکا نے ہردیپ سنگھ نجر کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی قومی سلامتی کی ترجمان کے بیان پر برطانوی حکومت کے ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت پر سنگین الزامات پر کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت صرف اپنے ہمسایوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود سے ہزاروں میل دور واقع ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم اداروں کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کے مذموم عزائم پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔
کینیڈا کی سرزمین پرسکھ رہنما کے قتل پر پانچ اہم ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر آگئیں اور ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزامات کو انتہائی سنجیدہ قرار دے دیا۔امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں تعاون کرے اور آسٹریلوی وزیراعظم نے صورتحال کوتشویشناک قراردیا۔ برطانوی وزیرخارجہ جیمزکلیورلی نے کہا ہردیپ سنگھ کے قاتلوں کو انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک اندازے کے مطابق 1.4 سے 1.8 ملین کے قریب بھارتی نژاد کینیڈین شہری ہیں۔ بھارت میں پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں ہی ہے۔ بھارت میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے اور کچھ سکھ علیحدگی پسند سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ’خالصتان‘ بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔