Site icon Daily Pakistan

یوم آزادی پاکستان٢٠٢٥ئ

یو ںدی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان تیرا ہے احسان
فیاض ہاشمی کا یہ ملی نغمہ جب سے پاکستان بنا ہے پاکستانی عوام کے دلوں م پر چھایا ہوا ہے۔ چھوٹے بڑے بچے بچیاں سب ،جب بھی یوم آزادی قریب آتا جاتا ہے یہ ملی نغمہ گانا شروع کر دیتے ہیں۔ کیوں نہ ہو اس نغمے سے پاکستانی قوم کے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اسی عظیم شاعر کاایک اور ملی نغمہ بھی ہماری تاریخ میںبڑا وزن رکھتاہے، وہ ہے:۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
اس دفعہ کے یوم آزادی کے موقع پر ہم ان ہی دو نغموں کے حوالوں سے یوم آزادی کی بات کریں گے۔ دیکھیں گے کہ ،کیا ہمارے سیاستدانوں نے پاکستانی عوام کے دلوں میں ان دو نغموں میں پاکستان کے بارے جو پیغام چھپا ہے، اس پر عمل کیا ہے کہ نہیں؟ پہلے شعر میں پاکستان بننے پر دنیا کوحیرانی اس بات پر ہوئی تھی کہ ایک طرف انگریزشاطر حکمران اور دوسری طرف ان کے ساتھی متعصب ہندو جو چاہتے تھے کہ انگریز جاتے وقت اقتدار ان کو دے کر جائے، اور ہم اکثریت کی بنیادپر ہمیشہ مسلمان اقلیت پر حکومت کرتے رہیں۔ جو کہتے تھے قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ان کو بانیِ پاکستان قائد اعظم نے پر امن دلیل اور منطق کی بنیاد پر جمہوری طریقے سے شکست دے کر دو قومی نظریہ اور کلمہ” لا الہ الا اللہ” کی بنیاد پر شکست فاش دے برصغیر کے مسلمان کو پاکستان بنا کر دیا تھا۔ اس پر برصغیر کے مسلمان قائد اعظمکے احسان مند تھے۔ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے عطیہ ہے۔ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ حی القیوم، زندہ جاوید ہستی ہے۔ انسان کی شہہ رگ کے قریب ہے ۔ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور قبول بھی کرتاہے۔جب تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے رب سے پاکستان مانگا تو اللہ نے ہمیں پاکستان، مثل مدینہ اسلامی ریاست عطا کر دی ۔ ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھاکہ ہم پاکستان میں تیرے نام کا جھنڈا گھاڑیں گے۔ یعنی اسلامی نظام ِحکومت ، حکومت الیہا قائم کریں گے۔ ہمارے پاس مدینہ کی اسلامی ریاست اور خلفائے راشدین کے طرف سے اس دنیا میں کامیابی سے چلائی ہوئی ریاست رول ماڈل کے طور پر موجود ہے۔ اسی بات کو قائد اعظم تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے عوام کے سامنے بار بار پیش کرتے رہے۔قائد اعظم نے اسی خواہش کو عوامی نعرے میں اس طرح کنورٹ کیا تھا۔پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” اس پر پورے برے صغیر کے عوام جن کے صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا نے ساتھ دیا۔ اپناوطن، گھربار،آبا کی قبروں،تاریخی ورثوں، ثقافت،کھیت کھیان ، کاروبار، یعنی سب کچھ چھوڑ اسلام کی خاطر پاکستان کا ساتھ دیا۔ پھردنیا کی عظیم ہجرت کی۔پاکستان بننے کے بعد اللہ سے کیے وعدے کے مطابق بانی پاکستان قائد اعظم نے اسلامی نظام حکومت کے لیے اقدامات کرنے شروع کیے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی تقریب سے خطاب میں ملک میں سودی نظام کی خاتمے، نظام تجارت اور بنکنگ کو اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کا حکم صاردکیا۔ ملک کے دستور اور اس کے تحت اداروں کو اسلامی بنانے کیلئے نو مسلم اسلامی اسکالر علامہ محمد اسد کو کام پر لگایا تھا۔ اس کیلئے قائد اعظم نے ایک ادارہ بھی قائم کیا۔ جس کے سربراہ علامہ محمد اسد کو بنایا تھا۔ اس ادارے کیلئے پاکستان کی وزارت مالیت کو فنڈ قائم کرنے لیے خط بھی خود لکھا تھا۔ مولاناسید ابوالاعلیٰ موددی کو کہا کہ وہ بتائیں ملک میں اسلامی نظام کیسے قائم کریں۔ سید مودودی نے ریڈیو پاکستان سے پاکستان میں عملی طور پر اسلامی نظام قائم کرنے کے طریقے بتائے ۔ یہ تقریریں اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور کتابی شکل میں موجود ہیں۔ اللہ کا کرنا کہ قائد اعظم کو اللہ نے جلد اپنے پاس بلالیا۔ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے ملک میں اسلام نظام قائم کرنے کے بجائے پاکستان کوسیکولر بنانے کے راستے پر لگا دیا۔ کہا کہ چودہ سو سالہ اسلامی نظام اس ماڈرن دور میں قائم نہیں ہو سکتا۔علامہ محمد اسد کو بیرون ملک سفیر بنا کر باہر بھیج دیا، سید مودودی جس نے ہر مکتبہ فکر کے ٣١ علماء کو اکٹھا کر کے ٢٢ نکات بنا کر دیے تھے کہ اس پر عمل کر کے اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہے۔اس پر سید مودودیکو جیل میں ڈال دیا۔ یہ ہے پاکستانی عوام کے جذبات کیخلاف سیاستدانوں کے کارنامے ۔دوسرے شعر کی تشریح ایسے ہے کہ پاکستان بنانے والوں نے نئی نسل کو نصیحت کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان بنانا اتنا آسان نہیں تھا۔ اُس وقت کے حالات ایسے تھے کہ مسلمانوں کے وجود کی کشتی سمندر کے اندر طوفان میں ہجکولے کھا رہی تھا۔ پاکستان بننا ایسا ہی تھا کہ جیسے اس ہجکولے کھاتے کشتی کو طوفان سے بچا کر منزل تک پہنچانے تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے تکلیفیں برداشت کر کے اس کشتی کو پار لگایا۔مگر اہل اقتدار نے اس کشتی کو سنبھال کر نہ رکھا۔ بجائے کشتی کوسنبھال کے رکھنے کے اپنی اقتدار سنبھال کر رکھا۔ نہ وقت پر اسلامی آئین بنا یااور نہ پاکستان کا اسلامی تشخص باقی رہنے دیا۔ وزارتیں بانٹے رہے۔ پاکستان کے ازلی دشمنوزیر اعظم بھارت نہرو نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں اتنی جلدی جلدی وازرتیں بدلتی ہیں جتنی میں دھوتیاں نہیں بدلتا۔ ١٩٥٦ء کا مشترکہ اسلامی آئین مغربی اور مشرقی عوام کی خواہشات کے مطابق بنا تو ڈکٹیٹر ایوب خان نے مارشل لا لگا کر اسے توڑ دیا۔ بلا آخر سیاستدانوں کی کمزرویوں اور بیرونی دشمنوں کی وجہ سے پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ برصغیر کے عوام جو پاکستان کی کشتی کو طوفان سے نکال کر لائے تھے اسے مثال ڈبو دیا۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کوعوام کے خواہشات کے مطابق مدینے کی اسلام فلاحی ریاست کے طرزپر تشکیل نو کریں۔ ان دو شعروں کی روح کے مطابق عوام اور اپنے رب سے وعدہ پورا کریں۔ اللہ معاف کر دیگا۔ اسلامی پاکستان پھلے پھولے گا۔ اللہ آسمان سے رزق نازل کریگا۔ زمین اپنی خزانے اُگل دے گی۔ خوشحالی ہو گی۔ امن و امان ہو گا۔ انصاف ہو گا اور اللہ ہم سے راضی ہو گا۔ ایٹمی میزائیل قوت پاکستان ،امت مسلمہ کی سیاسی رہنمائی کریگا۔ اللہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے عوام کو ٢٠٢٥ء کا یوم آزادی مبارک اور نصیب کرے ۔آمین

Exit mobile version