Site icon Daily Pakistan

،،جو کہوں گا سچ کہوں گا،،

سچ سب کا اپنا اپنا کسی کا سچ جھوٹ، تو کسی کا جھوٹ سچ۔ سچ کی تلاش میں نکلیں تو ظالم کا اپنا سچ، مظلوم کا اپنا سچ، گنہگار کا اپنا سچ، نیکوکار کا اپنا سچ سبھی سچے نکلے، سبھی جھوٹے نکلے۔ مگر فیصلہ کون کرے گا کہ کس نے سچ بولا اور کس نے جھوٹ؟
جھوٹ کے مقابل سچ ہمیشہ عارضی خسارے میں رہا۔ سچ مہنگا ہے، ہر کوئی اس کا خریدار نہیں۔ ہر کوئی اپنی پسند کا سچ سننا اور بولنا چاہتا ہے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے، اسے ہضم کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر سچ کی قیمت چکائی، منصور نے دار پر کھڑے ہو کر انا الحق کہا، اور سچ کا سودا کرنے والے بھی ہر دور میں موجود رہے نہ انہیں موت کا خوف تھا، نہ انعام کی تمنا۔قتیل شفائی نے سچ کی قیمت یوں بیان کی:
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آ سچ بولیں
ہم وطنوں کی اکثریت اندھیرے میں ہے۔ جھوٹ اور سچ کی اس جنگ نے سیاسی تلخیوں کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ جو اپنے تھے، بیگانے ہو گئے۔آسٹریلیا میں قیام کے دوران پاکستان فون کریں تو ہر کوئی ایک ہی داستان سناتا ہے ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ الامان! پاکستان افراتفری کا شکار ہے، لوگ بھاگ رہے ہیں، تعلیمی ادارے بند، کھیل کے میدان سنسان، ہسپتالوں میں موت کا رقص، حج و عمرہ تک معطل، اشیائے ضروریہ ناپید گویا پاکستان اپنے آخری دن گن رہا ہے۔مگر یہ سب دیکھنے اور سوچنے کے زاویے ہیں۔ آنکھ کا اینگل خراب ہو جائے تو درست چیز بھی غلط نظر آتی ہے۔ شاید ہمیں اپنے وطن کو دیکھنے کیلئے ایک نئی عینک درکار ہے ایسی عینک جو ہمیں حقیقت دکھا سکے، نہ کہ وہ جو صرف ہمارے زاویے کی توثیق کرے۔ہٹلر کے وزیرِ پروپیگنڈا، گوبلز نے کہا تھا:
جھوٹ کو اتنا دہرا کہ وہ سچ لگنے لگے۔اور آج یہی ہو رہا ہے جھوٹ اتنا بولا جا رہا ہے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔سچ کہیں طاق پر رکھا ہوا ہے، بے رونق، بے حیثیت۔عدالت میں جب کسی ملزم یا دعویدار سے سچ جاننے کےلئے حلف لیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے:میں سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔مگر کیا واقعی؟ یہ جملہ سننے میں بھلا لگتا ہے، مگر یقین کون کرے کہ وہ واقعی سچ بول رہا ہے؟سچ بولنا جرات کا کام ہے۔ ہر کوئی نہیں بول پاتا، سب پہلے کسی دوسرے کے سچ بولنے کا انتظار کرتے ہیں۔بشیر بدر نے کہا تھا:
جی چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں، حوصلہ نہیں ہوتا
کچھ لوگ وعدہ معاف گواہ بن کر سچ بولتے ہیں ، مگر وہ درحقیقت اپنے بچا کےلئے سچ کی اداکاری کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دس روپے کے سٹامپ پیپر پر بھی سچ نہیں بول سکتے، اور کچھ مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بھی جھوٹ بول جاتے ہیں ۔ یہ سب ضمیر کی بات ہے!سچ اور جھوٹ کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ سچ وقتی طور پر دب ضرور جاتا ہے، مگر ہمیشہ کےلئے نہیں۔ جیسے برسات کے بادل سورج کو چند لمحوں کیلئے چھپا سکتے ہیں مگر ہمیشہ نہیں، ویسے ہی سچ بھی آخرکار نکھر کر سامنے آتا ہے۔آج کے سیاسی ماحول میں سچ اس قدر دب چکا ہے کہ عوام کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مگر مرنے والے جھوٹ نہیں بولتے، کیونکہ تب انہیں جھوٹ بولنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔سیاستدان جب پارٹی بدلتے ہیں تو سچ بولتے ہیں یا شاید تب بھی نہیں؟ روزمرہ زندگی میں ہمارے ارد گرد گھومتی کہانیوں، دعوﺅں اور بیانات میں سچ تلاش کرنا آسان نہیں۔ سوشل میڈیا نے جھوٹ میں سچ کے غبار کی ایسی آمیزش کر دی ہے کہ حقیقت ناپید ہو چکی ہے ۔ لوگ سچ بولنے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ معاملات بگڑ نہ جائیں۔ مگر سچ بولنے کا راستہ مشکل ضرور ہے، مگر کامیابی کا راستہ بھی یہی ہے۔ علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے:سچ بولنے والا ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔یعنی سچ بولنے والا کسی کے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں ہوتا، نہ ہی خوف کا شکار ہوتا ہے۔ اگر سب سچ بولیں تو اس کی کڑواہٹ ختم ہو جائے، مگر یہ ممکن نہیں ۔سچ کو کوئی آنچ نہیں، اسے چھپایا نہیں جا سکتا ۔ آپ بولیں یا نہ بولیں، سچ سچ ہی رہے گا۔ جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے اور بالآخر سچ ہی سامنے آتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ریاست کے چاروں ستون سچ بولنے پر مکالمہ کریں۔ اگر سب اپنے اپنے جھوٹوں کا اعتراف کریں۔ اگر ایک "ٹروتھ کمیشن”بنایا جائے جہاں سب سچ بولیں۔ مگر سچ تو وہی بولے گا جس کا ظرف بڑا ہوگا اور ظرف کے امتحان میں کامیاب ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

Exit mobile version