Site icon Daily Pakistan

آئینی ترمیمی مسودہ اورحکومتی کوششیں

بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس معاملے پر حکومت سے اب کوئی بڑی شکایت نہیں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے آئینی ترمیم پر اپنے موقف کو حتمی شکل دینے کےلئے وقت مانگا ہے، ان کا جواب ملنے کے بعد بل کو اتفاق رائے سے منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ بڑی مشاورت کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور میں آپ کو اپ ڈیٹ کرنے کےلئے حاضر ہوئے ہیں۔ آئینی ترمیمی بل پر اتفاق رائے ہوا پی پی پی اور جے یو آئی (ف)نے سب سے پہلے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس پر تبادلہ خیال کیا، پھر ہم نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سےاس پر تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے وضاحت کی کہ ترمیم کے ابتدائی مسودے کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔ حکومت نے ان تمام متنازعہ حصوں کو واپس لینے پر اتفاق کیا جن پر ہم نے اعتراض کیا تھا جس سے اتفاق رائے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اس مرحلے پر، ہمارے درمیان کوئی بڑاتنازعہ نہیں ہے اور زیادہ تر متنازعہ مسائل حل ہو چکے ہیں، فضل الرحمان نے نوٹ کیا۔فضل الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ پی ٹی آئی کو اس سارے عمل کے دوران لوپ میں رکھا گیا تھا، ایک ماہ سے زائد عرصے سے ہم نے پی ٹی آئی کو اعتماد میں لیا اور ان سے مشاورت جاری رکھی انہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات سے بھی آگاہ کیا گیا۔پی ٹی آئی کے حالیہ اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ ہماری جانب سے آئینی ترمیمی بل کے مسودے کو حتمی شکل دی گئی تھی۔تاہم اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی قیادت نے اتفاق رائے سے منظوری کےلئے عمران خان سے ملاقات کی درخواست کی۔ ملاقات کے بعد پی ٹی آئی نے پریس کانفرنس میں حکومت کے رویے پر عدم اطمینان کا اظہار تاہم مجھے عمران خان کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں مثبت نقطہ نظر کی نشاندہی کی گئی۔ مولانافضل الرحمان نے پی ٹی آئی کو اپنے سینئر پارلیمنٹرینز اور قیادت سے مشاورت کے لئے وقت درکار ہے۔ انہوں نے وقت مانگا ہے اور ہم جلد ہی ان کے جواب کی توقع کریں گے۔مجموعی پیش رفت سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما نے ریمارکس دیے۔ اس معاملے پر ہمیں حکومت سے کوئی بڑی شکایت نہیں ہے، جب پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا شیڈول طے ہو جائے گا ہم اتفاق رائے سے بل پیش کرینگے اور قوم کو پیش رفت سے آگاہ کرینگے۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی(ف)کی ٹیموں نے جو کام کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی اصلاحات کے معاہدے کی توثیق کر دی ہے، مولانا فضل الرحمان نے تمام جماعتوں کو وقت دیا ہے ۔ یقین ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں مثبت جواب دینگی کیونکہ ترمیم کے ذریعے ان کے خدشات کو دور کیا گیا ہے ۔ امید ہے کہ مولاناانہیں قائل کر لیں گے۔پارلیمنٹ کا اجلاس ہونے کے بعد خواہش ہے کہ جے یو آئی(ف)بل پیش کرے،اتحادی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے جس طرح ہم نے 18ویں ترمیم کوبھاری اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اسی طرح امید ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم بھی اسی طرح منظور ہو جائے گی۔عمران خان سے اڈیالہ ملاقات کے بعد پی ٹی آئی نے آئینی ترامیم پر فضل الرحمان کی حمایت کر دی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے انکشاف کیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے مشکل وقت میں بھی عدالتی آزادی کےلئے کھڑے ہونے میں حمایت کرنے پرمولانافضل الرحمان کی تعریف کی اڈیالہ جیل میں ہونےوالی ملاقات میں پی ٹی آئی کے 5رہنما شامل تھے جنہوں نے عمران خان کو آئینی ترامیم پر ہونےوالی پیشرفت سے آگاہ کیا۔بیرسٹر گوہر نے رپورٹ کیا کہ خان نے بات چیت کو مثبت انداز میں قبول کیا، خاص طور پر عدالتی آزادی کےلئے مولانا فضل الرحمان کے عزم کی تعریف کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ پی پی پی اور جے یو آئی(ف)نے مجوزہ آئینی ترامیم پر مکمل اتفاق کرلیا ہے۔ بلاول نے کہا کہ دونوں جماعتیں عدالتی اصلاحات پر متحد ہیں۔ ترمیمی مسودہ اتنا ہی مولانا کا کام تھا جتنا کہ یہ پیپلز پارٹی کا تھا، امید ہے کہ مولانا خود مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرینگے۔جب سے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم پر لابنگ شروع ہوئی ہے،سیاسی منظر نامے پر سرگرمیوں کاایک طوفان دیکھا گیا ہے، جس میں ہائی پروفائل میٹنگز سے لے کر ان کیمرہ بات چیت تک اور وہیلنگ اور ڈیل کے الزامات سے لےکر قانون سازوں اور ان کے مبینہ اغوا تک شامل ہیں جمعہ اور ہفتہ مختلف نہیں تھے۔ مسلم لیگ ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر، مجوزہ ترامیم پر اتفاق رائے تک پہنچنے کےلئے دارالحکومت میں مولانا کی رہائشگاہ کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھے گئے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کےاجلاس صبح بلائے گئے تھے لیکن رات 10بجے کے بعدبھی شروع نہیں ہوسکے کیونکہ مجوزہ حتمی مسودےپرکوئی اتفاق رائے نہیںہوسکاہر دو تین اجلاسوں کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت چندگھنٹے تاخیر کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں رات 11:00بجے تک سیشن بالکل شروع نہیں ہوئے۔ستمبرمیں حکومت کو بھی ایسی ہی شرمندگی کاسامنا کرنا پڑاتھاکیونکہ وہ پارلیمنٹ میں بل پیش نہیں کر سکی تھی۔ لمبے چوڑے دعووں کے باوجود ایک بار پھر اسی طرح کی صورتحال میں پھنستادکھائی دے رہا ہے ۔ اکتوبر وہ مہینہ ہے جب درختوں سے پتے گرتے ہیں اور اپنے اصلی رنگ دکھاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اس مہینے نے سیاسی اشرافیہ کے اصل رنگ کو بے نقاب کر دیا ہے کیونکہ وہ ملک کے اعلیٰ جج کی تقرری پر جھگڑے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
غزہ کے لئے امداد
پاکستانی حکومت کو غزہ اور لبنان میں تنازعات سے نمٹنے کےلئے زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا قابل تعریف ہے۔ اگرچہ پاکستان نے مسلسل بڑے بین الاقوامی فورمز پر لیونٹ کے مصیبت زدہ لوگوں کےلئے آواز اٹھائی ہے، اب اسے اپنی کوششوں کے ذریعے براہ راست مدد فراہم کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ نسل کشی اور تباہی کا سامنا کرنےوالوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اپنے آپ میں ایک خوبی ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے لبنان اور غزہ کے لوگوں کےلئے پاکستانی امداد کی منصوبہ بندی کےلئے میٹنگوں کا شیڈول بنانا ایک اہم پیشرفت ہے اسی حوالے سے ایک اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں لبنان، اردن اور عراق کے سفیروں نے ورچوئل شرکت کی۔ یہ ہم آہنگی خاص طور پر علاقائی سفیروں کے ساتھ بہت اہم ہے کیونکہ ان تنازعات والے علاقوں تک رسائی اسرائیلی فورسز کی طرف سے زمینی اور سمندری راستوں کو مسدود کرنے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتی ہے جس سے امداد کو ضرورت مندوں تک پہنچنے سے روکا جاتا ہے۔ان لاجسٹک چیلنجز کو حل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان جغرافیائی طور پر تنازعات سے بہت دور ہے اور جنگ کے وقت کی پیچیدگیوں کو نیویگیٹ کرنا ضروری ہے ۔ پاکستان پہلے ہی 1251ٹن امدادی سامان پر مشتمل 12 کھیپ غزہ اور لبنان روانہ کر چکا ہے جن میں سے 10کھیپ غزہ کو بھیجی گئی ہیں ۔ رکاوٹوں کے باوجود یہ امداد کامیابی سے اپنی منزل تک پہنچی ہے۔امید ہے مسلسل استقامت کے ساتھ پاکستانی حکام فوری طور پر مزید بامعنی مددفراہم کرینگے۔ بالآخر غزہ اور لبنان کے لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں مدد کریں گے جیسا کہ پاکستان کی خواہش ہے۔

Exit mobile version