کون سے حقوق اس آئین سے محروم سرزمین کے باسیوں کو مل رہے ہیں جن پر سیاسی خانوادوں کے جانشین اترا ءرہے ہیں۔کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ 1973کا آئین بنانے میں سیاستدانوں کا کردار ہی انتہائی اہم رہا ۔ہر سیاسی جماعت نے اسکی تدوین و آرائش میں بھرپور حصہ لیا ۔ جیسے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کیلئے مذہبی جماعتوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ حکمران پارٹی نے اسے انتہائی مشکل سے منظور ہونے دیا لیکن بہرحال اسکے منظور کرنے کرانے میں اس وقت کی لیڈر شپ کا ووٹ اور حکومت کی فائنل منظوری شامل تھی ۔ حکمران آئین بنا کر پھر اس آئین سے کھیلنا شروع کر دیں تو یہ ان کے مفادات اور خود غرضی کا آئینہ بن جاتے ہیں۔آئین میں ادارے اور قانون کا ڈھانچہ عوامی خدمت کیلئے بنایا گیا لیکن حکمران قانون اور اداروں کو اپنے مفادات اور اختیار کو مضبوط بنانے کیلئے اسے دفاعی مورچہ میں بدلنے لگے ہیں ۔ کئی دہائیوں سے اقتدار و اختیار کی اس جنگ کی وجہ سے ملک اور معاشرہ کا دیوالیہ ہو چکا ہے ۔ملک معاشی طور پر اور معاشرہ اخلاقی طور پر بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ان آئین بنانے والے خاندانوں کی گرفت اقتدار اور اداروں پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ہے ۔سیاسی خانوادے اپنے سیاسی حلقہ انتخاب کو سیاسی تخت بنا کر اس پر قبضہ مافیا بن کر عوام کو بس خود کو منتخب کرنے اور مقابل کو ہرانے کا ذریعہ بنا چکے ہیں ۔ عوام کا اس 73کے جمہوری آئین میں اسکے سوا کوئی کردار نہیں رہا ۔ آئین میں انہیں اظہار رائے کی آزادی دی لیکن اس میں ترامیم لا کر عوام کو تحریر و تقریر میں اس طرح پابند کیا گیا کہ اب مدح سرائی اور خوش آمد کے سوا کوئی حکومتی خامی یا کسی حکمران جماعت کےخلاف بات دہشت گردی عوامی اشتعال انگیزی نفرت انگیزی عوام کو بغاوت کیلئے اکسانا اور قانون اور آئین سے انحراف ہے ۔ یہ وہ آئین ہے جس پر سیاسی فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اس ملک اور قوم کو آئین دیا ہے ۔یہ آئین جمہور کے نمائندہ ہونے پر اسمبلی کے ممبر کو بہت سارے استحقاق دیتا ہے ۔ جو کہیں کسی دفتر میں شناخت کرانے پر ٹریفک میں عام آدمی کی طرح پھنس جانے پر عام آدمی کے ساتھ قطار میں کھڑے ہونے پر اسے عام آدمی سمجھنے پر مجروح ہو جاتا ہے۔جمہور یعنی عوام جن کے نام پر یہ سارا میلہ سجا سجایا جاتا ہے ان کو اس میلہ جمہوریت میں کیا ملتا ہے ۔ عوام کے ووٹوں کے محتاج عوام کی تقدیر کے مالک بن جاتے ہیں ۔پھر ان کا اپنے لیے بنایا آئین ان کو پروٹوکول اور استحقاق کی آئینی چھتری اپنے سایہ میں لے لیتی ہے ۔ وہی عوام جن سے ووٹوں کی اپیل ہوتی ہے ان سے خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ ووٹوں سے پہلے جن سے ملنے اور جن کو ملنے کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں تھا اب سیکٹری سے ملاقات کیلئے کسی رابطہ کے محتاج ہیں ۔یہ ہرگز جمہوری نہیں ہے جہاں جمہوریت کے نام پر عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ٹی اے ڈی اے سے لیکر پروٹوکول کے اخراجات ٹیکسوں کی عوام کو صحت تعلیم روزگار امن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے ۔ کیا اس آئین پر اترانے والے معزز سیاستدان بتانا پسند کریں گے کہ ان کے بڑوں نے صنعتوں کو سرکاری قبضہ میں لیکر ملک کا نقصان کیا جو آپ انہیں نجکاری میں دیکر ملک کو فائدہ پہنچانا چاہ رہے ہیں ۔ آپ ملک کے وفادار ہیں یا آپکے بڑے غدار تھے جنہوں نے یہ بوجھ قوم پر لدے تھے ۔ آپ عقلمند ہیں یا وہ بیوقوف تھے ۔ وہ اس وقت کی سیاسی ضرورت تھی یا یہ اس وقت کی سیاسی مجبوری ۔ اس وقت بھی پیسہ اسی انڈسٹری نے کما کر حکومت کے اخراجات پورے کیے اور اب بھی انہیں بیچ کر حکومت اپنے خرچے ہی پورا کرے گی ۔ اس سے کوئی ڈیم کوئی روزگار کی صنعت یا عوامی فلاح پر تو یہ رقم خرچ ہونے والی نہیں ۔شکل میں اپنی آمدنیوں سے ادا کریں ۔ ٹیکس کسی بھی ریاست کو چلانے کیلئے جسم میں دوڑتے خون کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یہ خون اگر غیر ضروری جلا دیا جائے یا پانی کی طرح بہا دیا جائے تو معاشرہ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو تا بلکہ وہ معاشی کمزوری کے زیر اثر اخلاقی کمزوری کا بھی شکار ہو جاتا ہے ۔ معاشرہ ٹیکس ادا کرتا ہے تو اسے ریاست آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی فراہمی ممکن بناتی ہے ۔ جسے عوامی فلاح کے نام سے موسوم و منسوب کیا جاتا ہے ۔ عوام سے ٹیکس لیے جائیں لیکن انہیں بنیادی انسانی اور ملکی شہری کے حقوق میسر نہ کیے جائیں تو ایسی ریاست آمریت بادشاہت کی ترجمان کہلاتی ہے ۔ عوام کو سیاسی جلسے جلوس کی اجازت نہیں ۔ عوامی سیاسی اجتماع کیلئے اجازت درکار ہے ۔ ہر وقت ہر جگہ دفعہ144کا نفاذ ہے ۔ جب جمہوری میدان میں شکست نہ دے سکیں تو پھر اتحاد بنا کر مقابل کو آئین اور قانون میں ترمیم کراکے دہشتگرد ملک دشمن قرار دلوائیں ۔ بہت دفعہ یہ بات عرض کی ہے کہ ان اقدامات سے معاشرتی فلاح کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ اس سے معاشرہ میں نااتفاقی نفرت پیدا ہوتی ہے۔اس سے معاشرہ میں بداخلاقی پیدا ہوتی ہے ۔ جرم بڑھتا ہے ۔فلاح کا عنصر کم ہو جاتا ہے ۔ اس وقت ہمارا معاشرہ اسی فیز میں سے گزر رہا ہے ۔ حقیقی عوامی جمہوریت کا تو کہیں سایہ بھی نہیں ملتا جہاں بندا تھوڑی دیر کیلیے سستا ہی لے ۔ ہر طرف سے اقتدار اور اختیار کے حصول کی چالیں چلی جا رہی ہیں ۔ ادارے استعمال ہو رہے ہیں ۔ آئین قانون میں اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کی ترمیم ہو رہی ہیں ۔ آرڈیننس جاری ہو رہے ہیں ۔ ظالموں کیا یہ کیوں نہیں سوچتے بھٹو نہیں رہا ضیا مشرف کا اب کون نام لیتا ہے آئین بنانے والے اس کو بگاڑنے والے اس سے کھیلنے کھلانے والے کوئی باقی نہیں ۔ جالب اور فراز فیض آج بھی زندہ ہیں اور تم انہیں سچا مانتے ہوئے ان کی اپنے اجداد کو دی گالی کو فخر سے پڑھ کر خود کو عوامی قرار دیتے ہو ۔ عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی بیروزگاری سے اتنا کمزور بے بس مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ جبر استحصال و آمریت کو للکارنے سے گریزاں ہیں ۔ یہ آپ کی جیت نہیں شاید قدرت کی طرف سے ڈھیل ہے ۔