Site icon Daily Pakistan

آئی ایم ایف اور ترقی کا راستہ

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لئے نئے قرض پروگرام کی منظوری پر حکومت خوشی کے شادیانے بجارہی ہے اور اقتصادی ماہرین اسے ملکی معیشت کےلئے مثبت قرار دے رہے ہیں،لیکن اس نئے قرض پروگرام کی منظوری سے قبل پاکستان کو جن کڑی شرائط پر عمل کرنا پڑا اس کی وجہ سے عوام ان گنت مشکلات کا شکار ہو چکی ہے،توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہوں یا ٹیکس در ٹیکس کے سلسلے ایک عام پاکستانی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور اس کا نظام زندگی تہس نہس ہوچکا ہے،یہی نہیں ابھی آئی ایم ایف کی وہ شرائط جن پر عمل درآمد باقی ہے رہی سہی کسر کو پورا کرنے والی ہیں بالخصوص زرعی شعبے پر عائد کی جانے والی شرائط سے ملکی زراعت کی بربادی یقینی دکھائی دیتی ہے،آئی ایم ایف کی شرائط سے اب یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان کو قرض نہیں دے رہا بلکہ اس نے ملک پر غیر اعلانیہ قبضہ جمالیا ہے اور ملک کا نظام اب اس کی مرضی سے ہی چل رہا ہے،یہ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی نا اہلی ہے کہ ملک کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی بجائے اس نہج تک پہنچا دیا گیا ہے۔زراعت کے شعبے کو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ22فیصد سے زائد ہے اور ایک تہائی روزگار کے مواقع اسی شعبے کے مرہون منت ہیں لیکن آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کی ہے کہ حکومت آئندہ زرعی شعبے میں نہ تو کسی قسم کی سبسڈی دے گی اور نہ ہی اجناس کی امدادی قیمتیں مقرر کرے گی اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے پر ٹیکس بھی عائد کئے جائیں گے،آئی ایم ایف کی یہ شرائط یکم جنوی2025سے لاگو کی جائیں گی،ان شرائط کے نفاذ سے ملک پر بالخصوص زرعی شعبے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے،زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچے گا،زرعی شعبے سے متعلقہ اشیا جیسے کھاد،بیج،سپرے اور مشینری وغیرہ بھی مہنگی ہو جائیں گی اور اجناس کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ ملک میں فصلوں کی پیداواری لاگت پہلے ہی دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں،اس کے ممکنہ نتائج میں یہ خدشات بھی ہیں کہ غذائی اجناس گندم،چاول وغیرہ کی پیداوار ملکی ضرورت کےلئے ناکافی ہو جائیں گی اور ملکی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے اجناس کو درآمد کرنا پڑے گا،جس سے لا محالہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اب بھی ملک کو اسی سمت میں آگے لےجایا جارہا ہے،ملکی اثاثے فروخت کرکے یا گروی رکھ کر ملک چلانے کی کوشش کی جارہی ہے،ملکی ایئرپورٹس گروی رکھ دیئے گئے ہیں،بندرگاہوں کو بھی لیز پر دیا جارہا ہے،ٹیکسز کی بھرمار سے انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں،فارما سیوٹیکل،کار،موٹر سائیکل ، ٹرک بنانے کی صنعت تو بالکل ہی دم توڑ چکی ہے، جو صنعتیں سانس لے رہی ہیں وہ بھی شدید بدحالی کا شکار ہیں اور تیزی کے ساتھ بربادی کی جانب گامزن کردی گئی ہیں ، لاکھوں افراد بےروزگار ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد ہر روز بڑھتی جارہی ہے،آئی ایم ایف کی جن شرائط پر اب تک عمل درآمد کیا جا چکا ہے ان سے ہی لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں جبکہ جن شرائط پر مزید عمل درآمد کرنا ہے ان کے نفاذ سے ناقابل بیان صورتحال کے خدشات سامنے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں،خیال کیا جاتا ہے کہ نئے ٹیکسز سے ملک میں مڈل کلاس کا وجود بھی ختم ہو جائے گا،ایک عام پاکستانی جو پہلے ہی ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے،آئی ایم ایف کی حالیہ کڑی شرائط سے اس کی بدحالی میں مزید اضافہ ہوجائے گا کیونکہ بجلی گیس کے نرخ جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں ان میں مزید اضافہ ہونے کے قوی امکانات ظاہر ہو چکے ہیں،اگرچہ اس سے قبل آئی ایم ایف کی شرائط پر پاکستان میں مکمل عمل درآمد کی مثال نہیں ملتی لیکن اس مرتبہ صورتحال بالکل ہی مختلف ہے،بدحالی کا شکار ملکی معیشت،دوست ممالک کی سرد مہری اور عالمی مالیاتی ادارے کی بے لچک پالیسی نے حکومت کو مجبور کردیا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر من و عن عمل کیا جائے۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں کے سہارے ملک لنگڑے لولہے انداز میں تو چلایا جا سکتا ہے مگر اسے اپنے پاﺅں پر کبھی بھی کھڑا نہیں کیا جا سکتا،قرض لیکر عارضی سہارے تو اپنائے جا سکتے ہیں لیکن ملکی معیشت کو مضبوط نہیں کیا جا سکتا،عوام پر جس قدر بوجھ حکومت ڈال چکی ہے یہ بھی عوام کی قوت سے بہت زیادہ ہے اس سے زیادہ بوجھ کے نتائج بالکل بھی اچھے ثابت نہیں ہوں گے، اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ملک کی سمت کو درست کیا جائے،ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو دوہرانے کا سلسلہ بند کردیا جائے اور دوررس نتائج کی حامل ٹھوس پالیسیاں بنائی جائیں،اس کی سب سے بڑی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہیں کیونکہ ملکی معیشت کو بحرانوں سے باہر نکالنے کےلئے ملک میں سیاسی استحکام لانا انتہائی ضروری ہے،اس کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے،ملک میں ادارہ جاتی اصلاحات بھی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کیونکہ کرپشن، معاشی بد حالی اور بیڈ گورننس والے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کی توقع خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ملک کے پالیسی ساز،فیصلہ ساز،حکومت،بیورو کریسی، ادارے اور سرمایہ دار طبقہ ملک کی سمت درست کرنے میں اپنا کردار خلوص نیت سے ادا کریں اورملک کی مالیاتی پالیسی آئی ایم ایف کی مرضی کے بجائے ملکی ضرورت اور بہتری کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے،ملکی پیدوار میں اضافے کےلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں بالخصوص ملک کی زرعی پیداوار اور قدرتی وسائل کو ملکی مفاد میں استعمال کیا جائے تو ترقی کا راستہ یہیں سے نکل سکتا ہے۔

Exit mobile version