Site icon Daily Pakistan

آزادی اظہاراورپیکا ایکٹ ترمیمی بل!

آزادی اظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میںانتہائی اہم،جانداراورانسانی معاشرے میں افرادکے درمیان تبادلہ خیال ، تنقید و اصلاح کیلئے لازم وملزوم سمجھاجاتا ہے،آزادی اظہارِ رائے کوبطوربنیادی انسانی حق دنیا بھر میں انسانی حقوق کے قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ آزادی جمہوری معاشروں کے بنیادی ستونوں میں شامل ہے اور انفرادی آزادی، سیاسی استحکام اور معاشرتی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔آزادی اظہارِ رائے سے مراد ہے کہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات، نظریات، اور احساسات کو کسی بھی قسم کے دبا¶ کے بغیر آزادانہ طور پر بیان کرے۔ یہ آزادی اظہار کے تمام ذرائع (تحریر، تقریر، صحافت، فنون، وغیرہ) پر لاگو ہوتی ہے ۔ آزادی اظہار رائے کے متعلق عالمی قوانین اور معاہدے1 اقوامِ متحدہ کا عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق (1948) آزادی اظہارِ رائے کو آرٹیکل 19 کے تحت تسلیم کیا گیا ہے۔ہر شخص کو رائے اور اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے،اس میں یہ حق بھی شامل ہے کہ وہ بلا خوف و خطر رائے قائم کرے اور معلومات و نظریات کو کسی بھی ذریعے سے تلاش کرے، وصول کرے، اور پھیلائے۔2 بین الاقوامی عہد نامہ برائے شہری و سیاسی حقوق (1966)آرٹیکل 19 میں آزادی اظہارِ رائے کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ ہر فرد کو رائے رکھنے کا حق حاصل ہے،ہر فرد کو معلومات، خیالات، اور آراءکو کسی بھی وسیلے سے پھیلانے کی آزادی حاصل ہے۔3یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (1950) آرٹیکل 10 میں آزادی اظہاررائے کی ضمانت دی گئی ہے ،اس پر کچھ حدود بھی عائد کی گئی ہیں، جیسے کہ قومی سلامتی،عوامی نظم،دوسروں کے حقوق یا عزت کا تحفظ ۔ 4امریکی کنونشن برائے انسانی حقوق (ACHR)آرٹیکل 13 میں آزادی اظہار رائے کی حمایت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی فرد معلومات کو روکنے یا محدود کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔5افریقی چارٹر برائے انسانی و عوامی حقوق ۔یہ چارٹر آزادی اظہار کو انسانی حقوق کے بنیادی جز کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس حق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔آزادی اظہار کی حدود۔آزادی اظہارِ رائے ایک وسیع اور اہم حق ضرورہے پریہ حق درج ذیل حدود کے اندررہنے کاپابندبھی ہے۔ نفرت انگیز تقاریر، تحریر یادیگرذرائع سے پھیلایا جانے والاکسی بھی قسم کامواد ،جھوٹی معلومات کا پھیلا¶،دہشت گردی یا تشدد کو فروغ دینا،اخلاقی حدود،مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا،فحاشی یا غیر اخلاقی مواد کی تشہیر،قومی سلامتی،ایسی معلومات جو قومی سلامتی، عوامی نظم، یا ریاستی راز کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، ان کے متعلق آزادی اظہاررائے کومحدودکیاجاسکتاہے یامکمل پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔آزادی اظہاررائے ہرگز کسی دوسرے کی عزت و وقار، شہرت، یا رازداری کو نقصان پہنچانے کا جواز فراہم نہیں کرتی۔دنیا بھرمیں میڈیا آزادی اظہاررائے کا سب سے اہم اور تیزترین ذریعہ ہے،پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیااوردورجدیدمیںتیزترین سوشل میڈیا معلومات کے پھیلاﺅکیلئے استعمال کیاجاتاہے ،یہ سچ ہے کہ عالمی قوانین میڈیا کی آزادی کو تحفظ فراہم کرتے ہیںپر ساتھ ہی میڈیاپر سخت اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں بھی عائد کرتے ہیں۔دنیاکی بہت سی حکومتیں آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتی ہیں، جیسے سنسر شپ، انٹرنیٹ کی بندش، صحافتی اداروں پرمعاشی پابندیاں ، اشتہارات کی بندش یاصحافیوں کیخلاف مقدمات ۔ الیکٹرونکس اورپرنٹ میڈیا پر کسی قسم کی پابندی عائدکرنااوردائرہ حدودمیں تبدیلی کسی بھی ریاست کااندرونی اورآسان عملی اختیارہے جبکہ دورجدیدمیں تیزترین ٹیکنالوجی کے بل بوتے پرسوشل میڈیابڑی حدتک بے لگام معلوم ہو رہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد کا پھیلا¶ عالمی سطح پر ایک بڑا چیلنج بنتاجارہا ہے۔حکومت پاکستان نے بھی سوشل میڈیا پر غیرقانونی مواداورفیک معلومات کے پھیلاﺅکی روک تھام کیلئے پیکاقوانین میںترمیم کابل منظورکیاہے،پیکا قوانین میں ترامیم سوشل میڈیا پرغیرقانونی اورجھوٹی خبروں کے پھیلا¶ کی روک تھام کےلئے کی گئی ہیں تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارے کو بدنام نہ کرے۔ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، اتھارٹی کا مرکزی دفتراسلام آباد میں ہوگا، صوبائی دارالحکومتوں میں بھی قائم کیا جائے گا۔ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کریگی،اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اورحقوق کویقینی بنائے گی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن کی مجازہوگی۔پیکا ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہوگی ، پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پراتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کی مجاز ہوگی،اتھارٹی متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔پیکاترمیمی قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پرغیرقانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہوگا ۔ اتھارٹی کل 9 اراکین پرمشتمل ہوگی ، سیکرٹری داخلہ ،چیئرمین پی ٹی اے،چیئرمین پیمرا ریٹائر سرکاری اہلکار ہونگے ۔ بیچلرزڈگری ہولڈر اور متعلقہ شعبے میں کم ازکم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا، چیئرمین اورپانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کےلئے کی جائے گی۔حکومت کی جانب سے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ریٹائرسرکاری اراکین کے علاوہ دیگر پانچ اراکین میں دس سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی ، سافٹ وئیرانجینئر، ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہو گا۔بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پرکسی بھی غیرقانونی موادکو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا اختیار ہوگا ۔ اتھارٹی کا چیئرمین اوراراکین کوئی دوسرا کاروبارنہیں کرسکیں گے ۔ نئے ترمیم شدہ پیکا آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹرکرانا لازمی قراردیا گیا ہے،ا تھارٹی نظریہ پاکستان کیخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے ، تشدد پر اکسانے یاکسی دیگرغیرقانونی سرگرمی پر آمادہ کرنےوالے مواد کو بلاک کرنےکی مجاز ہوگی ۔ اتھارٹی افواج ، عدلیہ ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کیخلاف غیرقانونی مواد کو بلاک کرنےکی مجاز ہوگی۔پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔پابندی کا شکار ادارے،تنظیم یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پربھی اپلوڈنہیں کیے جا سکیں گے۔ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کمیٹی قائم کی جائیگی۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی،پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 ءپرعملدرآمد کےلئے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا۔ ٹربیونل کے فیصلے کوسپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں کے اندرچیلنج کیا جا سکے گا ۔ پیکاترمیمی بل کے تحت فیک نیوزپھیلانےوالے افراد کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ سوشل میڈیا پرغیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کےلئے وفاقی حکومت قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی۔ ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا، جس کی تعیناتی تین سال کےلئے ہوگی ۔

Exit mobile version