Site icon Daily Pakistan

آزاد کشمیر میں ہڑتال: محرکات اور وجوہات

ستمبر 29 کو دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر ہونے والے پرامن مظاہرے پاکستان کی ریاست یا ملک کیخلاف نہیں تھے، بلکہ یہ کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کے حق میں اظہارِ یکجہتی تھے۔ میں نے کور کمیٹی کے مختلف اراکین سے بارہا پوچھا کہ کیا وہ آزاد کشمیر کے موجودہ ڈھانچے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ کسی بھی رہنما یا رکن نے یہ نہیں کہا کہ وہ نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے آزاد کشمیر کے کئی وکلا سے بھی انٹرویوز کیے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے بیشتر مطالبات آئینی اور قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ، جموں و کشمیر کے مہاجرین کی 12نشستوں کے معاملے میں آئینی ترمیم درکار ہے، جو ناممکن نہیں اور نہ ہی ناجائز مطالبہ ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ تو جوائنٹ ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتی ہے، نہ صوبہ بنانا چاہتی ہے۔ اور ن ہی یہ کسی غدار یا فارن فنڈڈ گروپ پر مشتمل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر وفاقی کابینہ کے دو اراکین ان سے مذاکرات کیلئے نہ جاتے۔یاد رہے کہ اکثر مطالبات پر اتفاقِ رائے ہوچکا ہے، جبکہ بعض پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس پر ڈیڈ لاک موجود ہے۔گزشتہ روز لندن میں وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ وہ ذاتی طور پر ایک دو دن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کرینگے اور معاملے کو اعتماد میں لے کر حل کرینگے، اس دوران اوورسیز کشمیریوں کا مطالبہ ہے کہ ہڑتال کرنے والوں کیخلاف طاقت استعمال نہ کی جائے اور انٹرنیٹ یا فون سروسز بند کی جائیں۔برطانوی پارلیمنٹ کی کشمیر پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین عمران حسین ایم پی اور دیگر ارکان نے بھی اس حوالے سے اپنے بیانات جاری کیے ہیں، جن میں آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ مواصلاتی سروسز فوری بحال کی جائیں۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ برطانیہ، یورپ اور دیگر ممالک میں آباد کشمیری اپنی فیملیز سے رابطہ نہ ہونے کے باعث شدید پریشانی اور غصے کا شکار ہیں۔ میری رائے میں اگر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کارکن کسی قسم کی توڑ پھوڑ کریں گے یا پولیس پر تشدد کریں گے تو اس سے تحریک کو نقصان پہنچے گا۔ساتھ ہی آزاد کشمیر کی حکومتی جماعتوں کا کردار نہایت افسوسناک ہے۔ کوئی کمیٹی کو ”را فنڈڈ”کہہ رہا ہے، کوئی "اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار اور کوئی”ریاست دشمن”قرار دے رہا ہے۔ یہ الزامات حقیقت پر مبنی نہیں۔ البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس تحریک میں خودمختار کشمیر کے حامی اور قوم پرست بھی شامل ہیں، لیکن کیا ماضی میں ہم نے خود ‘تھرڈ آپشن”کو فروغ نہیں دیا؟مسلم کانفرنس کے حوالے سے بھی عرض ہے کہ 29 ستمبر کو امن ریلی نکالنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ یہ کوئی ریاست پر حملہ نہیں تھا۔ اکثریت کے عوامی ردعمل کے مقابلے میں چند افراد کا ردعمل نقصان دہ ثابت ہوا، جس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نہ نکلا۔ مین اسٹریم میڈیا کا رویہ بھی افسوسناک ہے۔ خبروں کو بلیک آؤٹ کرنا ایک مجبوری ہوسکتی ہے لیکن جھوٹی خبریں چلانا اپنی ساکھ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں مکمل پہیہ جام رہا اور عوام بڑی تعداد میں اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ واضح نظر آ رہا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 2021کے عوامی مینڈیٹ کے برخلاف عمران خان کی مخالفت میں فارورڈ بلاک بنا کر حکومت تشکیل دی گئی۔ آج اس فیصلے کا ردعمل سب کے سامنے ہے۔ جب عوامی نمائندے خرید لیے جائیں تو پھر جتھے پیدا ہوتے ہیں جنہیں کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا۔آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کبھی ریاست یا پاکستان کی افواج کے خلاف بغاوت نہیں کی بلکہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کا الحاق ایسے ملک سے ہے جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے اور کشمیریوں کی تحریک کا سب سے بڑا پشتبان ہے۔ آزاد کشمیر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ایک حساس پوزیشن رکھتا ہے، لہٰذا اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔اگر میڈیا بلیک آؤٹ کریگا تو یہ احتجاج بھارت کے پروپیگنڈے کا شکار ہوسکتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام تک غلط پیغام جائے گا۔ اسی لیے اوورسیز کشمیریوں اور پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ وہ پرامن رہیں اور ایسی کوئی بات یا پوسٹ نہ کریں جس سے نفرت اور انتشار پھیلے۔

Exit mobile version