برطانیہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانیوں کی تعداد تقریبا ًکوئی دو ملین کے قریب ہے جن میں اکثریت آزاد کشمیر کے لوگوں کی ہے ۔یہاں رہتے ہوئے آزاد کشمیر کے مسائل اور اس کے حل کیلئے ہمیشہ بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے ،ہر الیکشن سے پہلے آزاد کشمیر سے امیدوار برطانیہ کا دورہ کرتے ہیں، اپنے حق میں جلسے جلوس اور استقبالیے منعقد کرواتے ہیں۔ ائیرپورٹ آنے پر انہیں انکے حلقوں کے لوگ برادریوں اور جماعتوں کی بنیادوں پر ان کا استقبال کرتے ہیں ۔گلے میں ہار ڈالتے ہیں پھر ان کی الیکشن لڑنے کیلئے مالی امداد بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن جب وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو انکے ووٹر سپورٹر یہ نہیں پوچھتے کہ وہ حلقے اور علاقے کے مسائل کے حل کیلئے کیا کارہائے نمایاں ادا کریں گے یا ماضی میں انہوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کیلئے کون سے منصوبے سرانجام دئیے۔ نعرے اور دعوئے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ آجکل بھی یہی موسم ہے اگلے سال آزاد کشمیر کے الیکشن ہیں اور لیڈروں کے دورے ہو رہے ہیں لیکن اس دفعہ ان روایتی اقتداری جماعتوں اور لیڈروں کے لئے جموں وکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی چیلنج بن گئی ہے جو اگرچہ غیر سیاسی لوگوں کا ایک اتحاد ہے۔ جو عوامی مسائل پر فوکس کررہا ہے اور ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ آئندہ الیکشن جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی لڑے گی یا نہیں۔ بہرحال اس پر آنے والے دنوں میں مزید روشنی ڈالنے کے لئے کوشش کروں گا ۔آج میں برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں مقیم کاروباری اور سماجی رہنما سردار جاوید عباسی کا آزادکشمیر کو خوشحال بنانے کیلئے مراسلہ کالم کا حصہ بنا رہا ہوں۔ وہ اس ضمن میں پہلے ہی وہاں سماجی اور تعلیمی میدان میں بڑا فعال کردار ادا کررہے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں: "ایک اہم سوال یہ ہے کہ نوجوانوں اور خواتین کو کاروبار اور روزگار کیسے فراہم کیے جائیں تا کہ وہ خودانحصاری کے ذریعے اپنا اور اپنے خاندان کا خرچ چلا سکیں۔ آئے روز سنائی دیتی ہیں یہ دردناک خبریں کہ ہمارے نوجوان روزی کی تلاش میں غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہوئے یورپ یا خلیجی ممالک کی سمندری راہداریوں پر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جبکہ آزاد کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی، پہاڑوں، وادیوں، جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ یہ وہ وسائل ہیں جن سے مقامی معیشت کو تیزی سے تقویت مل سکتی ہے۔مقامی سطح پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کھولنے کے لئے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ آج کا دور صرف سرکاری ملازمتوں تک محدود نہیں رہا کاروباری ذہن رکھنے والے نوجوان اور خواتین اپنے گھروں سے یا چھوٹے یونٹس کے ذریعے روزگار پیدا کر سکتے ہیں۔ حکومت اور مقامی ادارے ایسے نوجوانوں و خواتین کیلئے سستے اور آسان قرضے، تربیتی پروگرام اور کاروباری رہنمائی (مینٹورشپ)فراہم کریں تاکہ وہ اپنا چھوٹا کاروبار شروع کر کے مستقل بنیادوں پر آگے بڑھ سکیں۔سیاحت اس خطے کے لیے سب سے بڑے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔ سیاحوں کو رہائش، کھانے پینے، رہنمائی، ٹرانسپورٹ اور دستکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے ہوٹل، گیسٹ ہائوس، ہوم اسٹے، ریسٹورنٹ اور فوڈ اسٹالز نہ صرف مقامی افراد کو روزگار دیں گے بلکہ ثقافتی تبادلے اور مقامی کھانوں کی ترویج کا ذریعہ بھی بنیں گے۔ تاہم سیاحتی ترقی ماحولیات اور مقامی روایات کا احترام کرتے ہوئے کی جانی چاہیے تاکہ قدرتی وسائل محفوظ رہیں اور مقامی کمیونٹیز اس کے فوائد حاصل کریں۔ مقامی مصنوعات اور دستکاری مثلاً کشمیری شالیں، لکڑی کا کاریگری کام، ہاتھ سے بنے زیورات اور دیگر ہنری اشیا دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ جدید پیکجنگ، معیار کنٹرول اور آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے ان ہنرمندوں کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پے منٹ سسٹمز استعمال کر کے مقامی مصنوعات کو قومی اور بین الاقوامی بازاروں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔زراعت، پولٹری اور ڈیری فارمنگ میں بھی بہت مواقع ہیں۔ آزاد کشمیر کی زمین کئی جگہ زرخیز ہے جدید زرعی طریقے، موسمیاتی مطابق فصلوں کا انتخاب، ویلیو ایڈیڈ پروسیسنگ(مثلا ًپھلوں کا جوس، خشک میوہ جات، پنیر اور دہی کی برانڈنگ)اور سردی رکھنے کی سہولیات(کول اسٹوریج) مقامی پیداوار کی قیمت بڑھا سکتے ہیں اور مارکیٹ تک رسائی آسان بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی تربیت اور فصلوں کی مناسب مارکیٹنگ کیلئے کوآپریٹو ماڈل مفید ثابت ہو سکتا ہے۔تعلیم اور خدمات کے شعبے میں بھی چھوٹے کاروبار کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ٹیوٹرنگ سینٹرز، کمپیوٹر اور ڈیجیٹل لٹریسی کورسز، ہنر پر مبنی ورکشاپس، موبائل فون مرمت، ڈیجیٹل پرنٹنگ، فوٹوگرافی اور گرافک ڈیزائننگ جیسی سروسز مقامی ضرورت کے عین مطابق ہیں ۔ خواتین گھر سے شروع ہونے والے کاروبار مثلا ًآن لائن بیکنگ، کپڑوں کی ڈیزائننگ، بیوٹی سروسز اور گھریلو خوراکی مصنوعات نہ صرف ذاتی خود کفالت کا ذریعہ بن سکتی ہیں بلکہ دیگر خواتین کو روزگار بھی فراہم کر سکتی ہیں۔ خواتین کی شمولیت کے لیے محفوظ اور سہولت یافتہ کام کی جگہیں اور خصوصی قرضہ اسکیمیں ضروری ہیں۔ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بہت اہم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آزاد کشمیر میں انٹرنیٹ کی سہولیات فوری فراہم کی جائیں بلکہ اقتداری جماعتوں بشمول عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی انٹرنیٹ کو اپنے منشور میں شامل کریں دنیا چاند پر پہنچ رہی اور ہمارے نوجوان ابھی بھی انٹرنیٹ کے سگنلز کے پہاڑی پر چڑھتے ہیں اس سلسلے میں موبائل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے یہ سہولتیں حکومت نے فراہم کرنی ہوتی ہیں ، تاکہ نوجوان آن لائن کاروبار، فری لانسنگ اور مارکیٹنگ کے ذریعے عالمی مارکیٹ تک پہنچ سکیں ۔ ساتھ ہی بجلی کی یقینی فراہمی، سڑکوں کی مرمت، سیاحتی راستوں کی بحالی اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا لازمی ہے تاکہ مقامی کاروبار اور سیاحت دونوں فروغ پائیں۔پرائیویٹ سیکٹر اور بیرونِ ملک مقیم کشمیری بھی بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔خالی مکانات اور کوٹھیوں کو سیاحتی یا کاروباری استعمال کیلئے کرائے پر دینے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اور بیرونی سرمایہ کاری کو آسان بنانیوالے قوانین اور ٹیکس مراعات متعارف کرائی جائیں۔ اسکے علاوہ مقامی لوگوں کو کاروباری تربیت،مارکیٹنگ سپورٹ اور معیاری کنٹرول کے ذریعے شروعاتی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری پر توجہ دیں میں نے برطانیہ سے ماحول کو صاف کرنے اور کوڑا کرکٹ کی ری سیلنگ کیلئے ایک ٹیم آزاد کشمیر لے کر گیا تھا ان کے اخراجات برداشت کیے انہوں نے سارا معائنہ کیا لیکن حکومت کی طرف سے سپورٹ نہیں ملی اور میری ساری کوششیں رائیگاں گئیں سیاحت اور زراعت میں ایسے طریقے اپنائے جائیں جو قدرتی وسائل کو تحفظ دیں، کوڑا کرکٹ کے انتظام اور صفائی کے اقدامات کو منظم کیا جائے، تاکہ آنیوالے سیاح اور مقامی لوگ دونوں بہتر ماحول میں رہ سکیں۔ مقامی کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں اس لیے فیصلے بناتے وقت مقامی آوازوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔آخر میں، بیرونِ ملک روزگار کے خواہشمند نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ غیر قانونی راستوں کا انتخاب ہرگز نہ کریں۔ قانونی طریقوں، تربیت اور مقامی مہارتوں میں اضافہ کے ذریعے بہتر اور محفوظ روزگار کے مواقع تلاش کریں۔ حکومتیں، بین الاقوامی تنظیمیں اور مقامی تنظیمیں مل کر ایسے پروگرام ترتیب دیں جو نوجوانوں کو قانونی و محفوظ روزگار کے متبادل فراہم کریں۔اگر ہم اپنے وسائل قدرتی، ثقافتی اور انسانی کو منظم انداز میں بروئے کار لائیں اور حکومت، پرائیویٹ سیکٹر اور بیرونِ ملک مقیم افراد مشترکہ ذمہ داری اٹھائیں تو آزاد کشمیر کو ایک مضبوط اور خود کفیل معاشی خطہ بنایا جا سکتا ہے۔
آزاد کشمیر کے خطے کو خوشحال کیسے بنایا جائے؟
