دیارِ غیر میں بسنے والے جب اپنی مٹی کی خوشبو کو سنبھال کر رکھتے ہیں، تو وطن صرف ایک جغرافیہ نہیں رہتا، بلکہ دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ میلبرن، جہاں آسٹریلیا کی ہوائیں چلتی ہیں، وہیں کچھ دل ایسے بھی ہیں جن میں راوی، چناب، اور سندھ کی ہوائیں بسی ہیں۔ یہی دل، یہی جذبے دلکش، منفرد اور ذائقے دار تقریب ”مینگو برنچ پارٹی”کا باعث بنے۔یہ ایک جشنِ پاکستانیت تھا جو ڈاکٹر یوسف ہارون کے فارم ہاؤس کی سرسبز فضا میں سانس لیتا نظر آیا۔ اسے پاکستانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن نے ترتیب دیا تھا۔ جس کا مقصد نہ صرف پاکستانیوں کو یکجا کرنا بلکہ ان کو ایک بار پھر یہ یاد دلانا کہ چاہے ہم دنیا کے کسی کونے میں ہوں، ہمارے ذائقے، ثقافت اور ہماری پہچان ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔”مینگو پارٹی”کے عنوان کے پیچھے دراصل ایک گہرا ذائقہ چھپا تھا پاکستان کے مشہور سندھڑی آم کا ,اگرچہ آسٹریلیا میں بھی آم پیدا ہوتے ہیں، مگر پاکستان کے کلمی، شہتوتی اور سندھڑی آم جس مٹھاس اور خوشبو کے ساتھ دل و دماغ کو تازہ کرتے ہیں، اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ تقریب میں پیش کیے گئے آم صرف پھل نہیں تھے بلکہ بچپن کی یادیں اور دوپہر کو آم کھانے کی روایت کا زندہ منظر تھے۔ آموں کیساتھ ساتھ اس تقریب میں ایک نہ بھولنے والا رنگ پنجاب کے دسترخوان کابھی تھا پراٹھے، مٹن کڑاہی،بھنا قیمہ اور لاہوری چنے یہ سب وہ ذائقے تھے جنہوں نے حاضرین کو نہ صرف سیر کیا بلکہ جذباتی بھی کر دیا۔ ہر نوالے کے ساتھ جیسے لاہور، گوجرنوالہ کی گلیوں کا ذائقہ زبان پر آ گیا ہو۔ اور یہ سب ایک ایسے ماحول میں جہاں صرف کھانے نہیں، بلکہ مسکراہٹیں، قہقہے، اور مل بیٹھنے کا وہ جذبہ تھا جو آج کی مصروف زندگی میں نایاب ہو چکا ہے۔ شرکا میں زیادہ لوگ وہ تھے جو اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ڈاکٹرز، اکاؤنٹنٹس، اور دیگر پروفیشنلز۔ گویا ذہانت اور تعلیم سے بھرپور اذہان، جنہیں دنیا نے اپنا تسلیم کیا، مگر انہوں نے اپنی ثقافت و زبان اور جڑوں سے رشتہ نہیں توڑا۔ اس تقریب میں نہ صرف آموں کی مٹھاس تھی بلکہ رویوں، باتوں اور اندازِ میزبانی میں بھی وہی مٹھاس جھلکتی تھی ۔یہ پاکستان کی یادوں، ذائقوں اور ثقافت کی ایک جیتی جاگتی محفل تھی جہاں ہر نوالہ، قہقہہ، ہر گفتگو میں وطن بولتا تھا۔ڈاکٹر ماجد گوندل اور ڈاکٹر ہارون یوسف نے جس محبت، دلجمعی اور ترتیب سے اس تقریب کا اہتمام کیا، وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔ فارم ہاؤس کی کھلی فضا، ہر سو بکھرا سبزہ، اور صاف ستھری ہوا نے جیسے اس تقریب کو ایک روحانی کیفیت دے دی۔ مینگو پارٹی ان تمام پاکستانیوں کے لیے ایک پیغام ہے جو بیرون ملک بسے ہوئے ہیں کہ ہماری اصل پہچان،ہماری ثقافت، زبان، ہمارے کھانے، میٹھے بول، مہمان نوازی، سب کچھ آج بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا وطن کی گلیوں میں کبھی تھا۔ یہ تقریب اس بات کا ثبوت تھی کہ چاہے ہم دنیا کے کسی کونے پر ہوں، ہماری تہذیب، روایتیں ہمیں وطن کی طرف کھینچ لاتی ہیں ۔ تقریب میں ڈاکٹر اسرار الحق سے ملاقات خوشگوار تجربہ رہا وہ ہیں تو ماہر امراضِ قلب، مگر ان کے دل کی دنیا کہیں زیادہ وسیع اور نرم تھی۔پہلی ہی ملاقات میں ایسا محسوس ہوا جیسے برسوں سے شناسا ہوں ان کے دھیمے لہجے، شائستہ گفتگو اور نے
ایک ہی پل میں ایک اپنا پن سا پیدا کر دیا۔ یوں لگا جیسے وہ دل کی زیروبم کو ہی نہیں بلکہ انسانوں کے اندر کے درد کو بھی سمجھتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں طبی الفاظ کم اور انسانی جذبے زیادہ جھلکتے ہیں۔ یوں اس یادگار محفل کا اختتام بھی اتنا ہی دلنشین تھا جتنا اس کا آغاز، ڈاکٹر ظفر اقبال نے ناصر کاظمی کی غزل” گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے” بغیر کسی ساز کے ایسی تاثیر سے پیش کی کہ جیسے خامشی بھی گویا ہم نوا ہو گئی ہو۔ ان کی آواز میں وہ دھیمے سروں کی چاشنی تھی جو نہ صرف سماعت کو چھوئے بلکہ روح کو بھی مہکا دے۔ ڈاکٹر ظفر نہ صرف طب کی دنیا کا معتبر نام ہیں،بلکہ میدانِ ہاکی کے بھی مردِ جواں نکلے۔ ادھیڑ عمری میں بھی چستی و چالاکی سے ایسا کھیل دکھایا کہ تمغہ جیت لائے۔محفل میں جنرل حمید گل کے فرزند عمر گل نے اپنی روایتی خوش مزاجی اور علمی بصیرت سے محفل کو گشتِ زعفران بنائے رکھا ۔ تاریخ کے اوراق پلٹے، فارسی و پشتو محاوروں کی پھلجڑیاں چھوڑیں ، اور اپنی مخصوص نرمی سے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ آخر میں ان کے ہاتھ کی بنی چائے جس میں ذائقے اور محبت کی چاشنی شامل تھی گویا محفل کا میٹھا نقط اختتام بن گئی۔ پرخلوص میزبانی اور شاندار عزت افزائی نے اس مینگو برنچ کو ایک یادگار تجربہ بنا دیا۔ ہم میزبانوں کے تہہ دل سے ممنون اور مشکور ہیں کہ انہوں نے موسمِ آم کو اتنی شیرینی، شائستگی اور سخن فہمی سے سجا دیا یہ برنچ کو ایک خالص وطن نما جشن بنا دیا۔ یہ صرف آم، پاکستانی پکوان اور قہقہوں کی محفل نہ تھی یہ وہ مقام تھا جہاں دل، دیارِ غیر میں بھی وطن سے جا ملے۔آخر میں، ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں ان سب محبانِ وطن کا جنہوں نے میلبرن میں پاکستان کو ایک بار پھر جِلا بخشی۔ آئندہ جب بھی سندھڑی آم کی خوشبو آئے گی، یہ مینگو پارٹی اور اس کے رنگین مناظر ضرور یاد آئیںگے۔
آ م کا سفر، وطن کی خوشبو کے سنگ
