ماہرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ شہبازشریف نے ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد پر لشکر کشی کرنے والے شرپسند ٹولے کیخلاف فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے اور انکی شناخت کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔انہوں نے اسی ضمن میں مزید کہا کہ اس سلسلہ میں استغاثہ کے نظام میں بہتری لائی جائے اور اسلام آباد یا ملک کے کسی بھی شہر پر ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے لشکر کشی روکنے کی جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔ اس سلسلہ میںرواں ہفتے میں اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیرصدارت امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ تاریخی کرپشن اور اپنی حکومت کو بچانے کیلئے ملک کو دیوالیہ کرنے کی مذموم سازشیں رچانے والے اب قانون کی گرفت میں آئے ہیں۔یاد رہے کہ ان عناصر نے قانونی راستہ اپنانے کی بجائے ملک بھر میں انتشار کی فضا پھیلانے کی کوشش کی ۔ شہباز شریف نے سوال کیا کہ یہ کیسے انقلابی ہیں جو اس ملک کی تباہی اور انتشار پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے بقول شر پسند ٹولے کے منتشر ہوتے ہی سٹاک ایکسچینج ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرگئی ہے ۔ انہوں نے اس امر کو اہم قرار دیا کہ احتجاج سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت نے برداشت سے کام لیا۔غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اسلام آباد میں احتجاج کی آڑ میں ہزاروں لوگوں نے ہتھیاروں اور اسلحہ کے ساتھ دھاوا بولا۔ جو غالباً ملک کے معاشی استحکام کو تباہ کرنا چاہتے تھے جو پاکستان کے دشمنوں کا اصل ایجنڈا ہے ۔اسی حوالے سے یہ امر اہم ہے کہ بے شک سیاسی جماعتوں کو کسی حکومتی پالیسی کیخلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کا حق حاصل ہے اور پرامن احتجاج میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کیونکہ اختلاف رائے کا اظہار ہی جمہوریت کا حسن ہے جس سے حکمرانوں کی من مانیوں کی روک تھام اور سسٹم کو خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھانے اور مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے تاہم احتجاج کی آڑ میں اگر ملک میں انتشار و خلفشار پیدا کرنے کا راستہ اختیار کیا جائے جس سے ملک کے شہریوں کی جان و مال اور سرکاری املاک کے تحفظ کیلئے بھی خطرات پیدا ہو جائیں تو ایسا کوئی اقدام جمہوریت کو گہنانے اور ملک کی سلامتی کو خطرات میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ مبصرین کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف نے سابقہ اور موجودہ دہائی کے دوران تعمیری اور مثبت سیاست کی بجائے تخریبی سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنے مخالف سیاسی قائدین کے ساتھ ساتھ ریاستی انتظامی اداروں اور انکے سربراہان کو رگیدتے ہوئے ملک اور اسکے سسٹم کا تشخص خراب کرنے کی بار بار کوشش کی ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے اودھم مچانے والی سیاست کا راستہ اپنے لئے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر اختیار کیا جو کسی صورت مثبت تعمیری سیاست کے زمرے میں نہیں آتا جبکہ افراتفری اور انتشار کی اس سیاست سے 2012ءسے اب تک ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور یوں حکومتی گورننس کے کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہونے سے ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو بھی ملک کی سلامتی و خودمختاری کیخلاف اپنی گھناونی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ 2014ئکی دھرنا تحریک میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جاتی اور ایسے کسی بھی اقدام کو ریاستی اتھارٹی بروئے کار لا کر روک دیا جاتا مگر اس وقت پارلیمنٹ اور سسٹم کو بچانے کے نام پر حکومت کی جانب سے دھرنے میں موجود شرپسندوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا گیا چنانچہ ان عناصر نے نہ صرف اس دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاوس اور وزیراعظم ہاﺅس سمیت مختلف سرکاری عمارات پر دھاوا بولنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ اسکے بعد انتشاری سیاست پی ٹی آئی کا عام چلن بنا لیا گیا جس کا مظاہرہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بھی کیا جاتا رہا۔ بالآخر اس سیاست کا نتیجہ ملک کے سکیورٹی اداروں بشمول جی ایچ کیو اور جناح ہاوس لاہور پر 9 مئی کے تخریب کاری پر مبنی دھاوے کی صورت میں برآمد ہوا۔واضح رہے کہ اس تخریب کاری میں ملوث لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ان کیخلاف مروجہ ملکی قوانین کے تحت مقدمات درج ہوئے مگر مقدمات کی برووقت سماعت نہ ہونے کے باعث یہ مقدمات لٹکے رہے اور انصاف کی عملداری کا عمل انتہائی سست رہا۔ اگر 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو عدالتی عملداری میں فوری سزائیں مل جاتیں تو یقیناً 24 نومبر کی فائنل کال کی صورت میں پی ٹی آئی کو اپنی انتشاری سیاست مزید آگے بڑھانے کا موقع نہ ملتا۔ اس سیاست میں پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کے حوصلے اتنے بلند ہوئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاج کرنے سے روکنے کے احکام صادر ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ خیبر پی کے اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے پشاور سے ریلی نکال کر ڈی چوک اسلام آباد تک لے جانے کا آغاز کر دیا اور اس ریلی کے دوران پی ٹی آئی کے مسلح کارکن جن میں افغان باشندے بھی شامل تھے‘ اپنے راستے میں آنیوالی سرکاری تنصیبات کا حشرنشر کرتے رہے جبکہ انکے پرتشدد حملوں سے پولیس اور رینجرز کے چھ اہلکار شہید اور دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔اسی بنیاد پر ڈی چوک کو شرپسندوں سے پاک کرنے کیلئے 25 اور 26 نومبر کی درمیانی رات پولیس‘ رینجرز اور ایف سی کی جانب سے مشترکہ حکمت عملی کے تحت مربوط اپریشن کیا گیا اور ڈی چوک کو مظاہرین سے واگزار کرالیا گیا۔یہ امر اہم ہے کہ پی ٹی آئی نے اس آپریشن کے بعد اپنا احتجاجی پروگرام ختم کر دیا تاہم اس کا افراتفری کا ایجنڈا بدستور قائم ہے جس سے کسی بھی وقت اور ملک کے کسی بھی حصے میں ناخوشگوار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سیاست سے ملک کی معیشت اور گورننس کو ہی نہیں‘ خود پی ٹی آئی کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے جس سے اس کا مستقبل داﺅ پر لگ گیا ہے ۔ بہر کیف مبصرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ آنےوالے دنوں میں سبھی فریقین ہوش و خرد کا مظاہرہ کرینگے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکے۔
احتجاج یاانتشار
