اقوامِ عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ احسان فراموش قوموں نے کبھی کسی کی دوستی کا حق ادا نہیں کیا۔ ان کے وجود میں وفا کی خوشبو نہیں بلکہ مفاد کی بو بسی ہوئی ہوتی ہے۔ یہی حال افغانستان اور اس کے حکمرانوں کا ہے جو گزشتہ طویل عرصے سے مسلسل بے وفائی کرتے چلے آ رہے ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ملک آج تک استحکام حاصل نہیں کر سکا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہ ملک اسلام کے نام پرخ معرضِ وجود میں آیا اور اس نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کو اپناتے ہوئے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ نہ صرف بہتر سلوک کیا بلکہ برادرانہ تعلقات کو ترجیح دی۔ جب افغانستان پر مشکل وقت آیا تو پاکستان نے اپنی زر و زمین بھی اس کے لیے قربان کر دی اور گزشتہ ایک طویل عرصے سے اب تک اس کی مہمان نوازی میں مصروف ہے۔ افسوس کہ اس کے عوض ہمارے ان مہمانوں نے منشیات اور اسلحے سے ہماری پاک سرزمین کو دھندلا کر دیا۔ اگر ان مہمانوں میں معمولی سی بھی اخلاقی اقدار ہوتیں تو یہ لوگ زندگی کے آخری سانس تک پاکستان کی سربلندی اور استحکام کیلئے کام کرتے۔ آج دنیا بھر کے زی شعور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ افغانستان کے لوگوں میں انسانیت کا فقدان ہے۔ وہ اس قوم پر حیران ہیں جس نے اپنے محسن ملک کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان نے ان کے لیے پناہ، خوراک، روزگار، تعلیم اور علاج جیسے مواقع فراہم کیے، مگر اس کے بدلے میں یہی لوگ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ان لوگوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے خون میں وفا کی بجائے غداری اور فتنہ شامل ہے۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے ملک اور رشتہ داروں بلکہ اپنے والدین تک کے بھی وفادار نہیں۔ اس کی مثال افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ کے واقعے سے دی جا سکتی ہے، جنہیں ان کے سگے برادرِ نسبتی سردار داود نے اقتدار سے محروم کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا ۔ اس کے بعد ایک ایسا خونی سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے، اور اگر ان لوگوں نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ سلسلہ ان کی آئندہ نسلوں تک تباہی پھیلائے گا۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو لاکھوں افغان اپنی جانیں بچانے کیلئے وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ زندگی کی تمام تر سہولیات بھی فراہم کیں۔ لیکن افسوس کہ ان میں سے اکثر نے اپنے کردار اور رویے سے پاکستان کو مایوس کیا۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ان ہی پناہ گزینوں کی صفوں میں سے کچھ عناصر بعد ازاں طالبان کے نام سے سامنے آئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی معلوم نسب نہیں، جن کے باپوں کا پتا نہیں، اور جنہیں جنم دینے والی مائیں بھی ان کے تعارف سے لاعلم رہیں کیونکہ وہ سب پناہ گزین کیمپوں میں پلے بڑھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہی لوگوں نے عالیشان بنگلے اور کاروبار بنا لیے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کا رویہ اور طرزِ عمل ایسے ہے جیسے کسی "ڈائمنڈ ایریا” کی پیداوار ہو، جسے عام زبان میں "ہیرا منڈی” کہا جاتا ہے جہاں کی خواتین اپنی اولاد کو باپ نہیں بلکہ ماں کے نام سے پہچان دیتی ہیں۔ ان کا حال کسی برائلر مرغی سے مختلف نہیں جو فارمز کی پیداوار ہوتی ہے، جس کی نہ کوئی نسل ہوتی ہے اور نہ کوئی پہچان۔افسوس کہ انہی مصنوعی کرداروں نے ملکِ پاکستان میں بیماریوں، بدامنی اور دہشت گردی کو جنم دیا۔ افغان عوام کے یہ عناصر اپنے محسنوں کو خوش کرنے کی بجائے دہشت گردی اور تخریب کاری میں مصروف رہے۔ ہر چند روز بعد ہمارے بیگناہ شہریوں اور محافظوں کو نشانہ بناتے رہے۔ ہماری بہادر افواج انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتی رہی، لیکن اب ان بدبختوں نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ ملی بھگت کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی عملی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کی بہادر افواج نے ان کے مقابلے کے لیے بھرپور عزم کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ ان عناصر کو ان کی اوقات دکھائی جائے۔ یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے، اور پاکستانی عوام نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا ہے۔ قوم نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی گھٹیا حرکات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، اور ایسے عناصر کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے افغان طالبان یہ بھول چکے تھے کہ پاکستان کی سرزمین کے محافظ ہر وقت اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کی حفاظت کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ ان محافظین کی قیادت ایک ایسی شخصیت کے سپرد ہے جس کے سینے میں ایمان، تقوی اور قرآنِ پاک کی روشنی ہے فیلڈ مارشل جنرل سید حافظ عاصم منیر صاحب ۔ انہوں نے حب الوطنی، تجربہ اور نظم و ضبط کی بنیاد پر ایک ایسی ٹیم تشکیل دی ہے جو ہر لمحہ ملک کی حفاظت کے لیے تیار رہتی ہے۔ دشمن کی پراپیگنڈا مہم کے توڑ کے لیے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری جیسی دانا، باوقار اور بلیغ شخصیت سرگرم ہیں، جو دشمن کے جھوٹ کا ایسا مدلل جواب دیتے ہیں کہ مخالفین کے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ ہم ربِ العالمین سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے ان رہنمائوں کو سلامت رکھے۔شاید ہمارے دشمن یہ بھول چکے ہیں کہ ربِ کائنات نے پاکستان اور اس کی افواج کو نہ صرف اس مقدس سرزمین کی حفاظت سونپی ہے بلکہ سعودی عرب، مکہ مکرمہ اور روض رسول ۖ کے انتظامی امور کی خدمت کا شرف بھی عطا فرمایا ہے۔ جو کوئی بھی پاکستان یا سرزمینِ حرمین پر میلی آنکھ ڈالنے کی جسارت کرے گا، اسے نہ صرف پاکستان کی بہادر افواج کے فولادی ہاتھوں کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ربِ العالمین کی غیبی مدد بھی ان کے ساتھ ہوگی۔ شاید اتر جائے ترے دل میں میری بات۔
احسان فراموش قومیں اور پاکستان کا اسلامی کردار

