آج اسرائیل اپنی طاقت کے گھمنڈ میں جو ظلم فلسطینیوں پر روا رکھے ہوئے ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔اب تو اس نے دوسرے مسلمان ممالک پر بھی فضائی حملے شروع کر دئیے ہیں جسکی حالیہ مثال ایران کے بعد اس کا قطر پر فضائی حملہ ہے۔اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو خالصتاًشر کی بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔اس وقت دنیا کے اندر جس قدر بھی طوائف الملوکی ،دہشت گردی ،افراتفری اور شر کا پھیلائو ہے وہ اسی اسرائیل کا مرہون منت ہے ۔توریت اور قرآن کریم اس قوم کی سر کشی اور محسن کشی سے عبارت ہیں ۔یہودی ذہن اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے مقاصد کا جائزہ لینے کیلئے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر کو دیکھنا ہو گا ۔بنی اسرائیل کا غلام ہونا ،بھٹکنا ،ان کے بچوں کا ریاستی سطح پر قتل ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے خلاف طویل جدوجہد اور پھر فرعون کے غرق ہونے سے بنی اسرائیل کو بھرپور آزادی ،قوت اور حکومت حاصل ہوئی ۔موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہودیوں نے اپنی اس طویل محرومی ،غلامی و بد سلوکی کا بدلہ لینے کیلئے وہی فرعونی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دئیے جس کا وہ خود شکار تھے ۔اس طرح وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کی بجائے فرعون کے پیروکار نظر آتے ہیں ۔یہودیوں نے دنیا اور دیگر اقوام کو اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑنے کیلئے منصوبہ بندی کی جس پر وہ بڑی ثابت قدمی اور ڈھٹائی سے آج تک گامزن ہیں ۔نبی اکرم ۖکے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل مدینہ کی معیشت یہودیوں کے قبضہ میں تھی ۔مقامی باشندے ان کے مقروض اور سود در سود کی لعنت میں گرفتار تھے ۔آپۖ نے اپنے تدبر اور معاملہ فہمی سے حالات کو تبدیل کر دیا ۔آپۖ کے ساتھ آئے ہوئے مہاجرین کے جذبہ و لگن ،کام کرنے کی خواہش اور بقا کیلئے جنگ نے مقامی باشندوں کے ایثار و قربانی سے مل کر جلد ہی مدینہ کو ایک مثالی ریاست میں تبدیل کر دیا ۔نبی کریمۖ نے ہر ممکن طریقے سے کوشش کی کہ یہودیوں کو بھی معاشرے میں ضم کر دیا جائے ۔ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا سلوک کیا ۔مکمل انتظامی و سیاسی قوت ہونے کے باوجود ان کے درمیان فیصلے یہودی مذہب کی بنیاد پر کیے ۔اپنا دین زبردستی ان پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی گئی حتیٰ کہ کئی تنازعات کا فیصلہ بھی یہودیوں کے حق میں دیا ۔انصاف کو ہر لمحہ ملحوظ خاطر رکھا گیا اور اس کا اتنا اعلیٰ معیار تھا کہ اکثر یہودی اپنے باہمی تنازعات لے کر نبی کریمۖ کی عدالت میں پہنچنے لگے مگر اس سب کے باوجود وہ اپنی سازشوں سے باز نہیں آئے ۔آخر تنگ آ کر انہیں مدینہ سے بے دخل کر دیا گیا اور خیبر کا قلعہ فتح کر لیا ۔یہودیوں کی بے دخلی آج تک ان کے ذہنوں میں پیوست ہے اور وہ بدلہ چکانے کو تیار ہے ۔اندلس جو موجودہ اسپین ،پرتگال اور فرانس کے حصوں پر مشتمل تھا یہاں مسلمانوں کی حکومت کے دوران یہودیوں کو پھلنے پھولنے کا بہترین موقعہ ملا مسلمانوں نے انہیں بہترین سرکاری عہدے دئیے ،مذہبی ،سیاسی و تجارتی آزادی و سہولیات بہم پہنچائیں ان کے اپنے تاریخ نویس اس دور کو یہودیوں کا بہترین دور قرار دیتے ہیں ۔اندلس میں مسلمانوں کی شکست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی قتل وغارت گری ،ظلم و ستم اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ یورپ ،روس اور ترکی کے گردو نواح میں پھیل گئے ۔ترکی میں قائم خلافت نے بھی ان یہودیوں کو معاشرے میں اہم مقام دیا جس سے جلد ہی انہوں نے تجارت ،معیشت اور بینکاری کے شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کر لیں ۔دوسری جنگ عظیم تک یہودیوں نے یورپ کے کئی ملکوں میںاپنا اثر و رسوخ مستحکم کر لیا ،عوام الناس کو اپنا معاشی غلام بنا لیا اور سودی جکڑ بند سے ان کا سب کچھ یہودی معاشی اداروں کے پاس گروی ہو گیا حالانکہ اس سے پہلے 1290ء میں برطانوی بادشاہ ایڈورڈ نے انہیں برطانیہ سے جبری بے دخل کر دیا اور یہ بے دخلی تقریباً 400سال تک موجود رہی اس دوران پورے یورپ میں یہودیوں پر جائیداد خریدنے پر پابندی تھی ۔یورپ میں انہیں ظالم و سفاک کاروباری خیال کیا جاتا تھا ۔عیسائی دنیا میں یہ ایک عام خیال تھا کہ یہودی ان کے بچوں کو اغوا کر کے قتل کر دیتے ہیں ۔شکسپیئر نے یہ لکھا ہے کہ یہودی انسانی گوشت پوست تک کا کاروبار کر سکتے ہیں ۔ہٹلر نے یہودی معاشی حصار اور جکڑ بندی توڑنے کیلئے سخت اقدامات اٹھائے ۔یہودی نسلی برتری کے مد مقابل ہٹلر نے آرئین نسل کی برتری کا دعویٰ کیا اور یہودیوں کو بری طرح کچل کر رکھ دیا ۔یہ یہودیوں پر موجودہ دور کی تازہ ترین یلغار تھی مگر یہودیوں نے کمال ذہانت سے دوسری جنگ عظیم کے اثرات کو اپنے مفاد میں تبدیل کر لیا جھوٹی سچی کہانیوں کو اکٹھا کیا گیا ۔اپنی مظلومیت کی داستانیں گھڑی گئیں گویا ہٹلر یہ جنگ صرف یہودیوں کے خلاف لڑ رہا تھا جبکہ اس کی لڑائی تو برطانیہ ،فرانس جیسی عیسائی ریاستوں سے تھی ۔اس جنگ میں جرمن اور اس کے اتحادی تقریباً ایک کروڑ جبکہ اس کے مخالفین تقریباً 5کروڑ عیسائی مارے گئے مگر اب دنیا کو اس جنگ کے حوالے سے صرف یہودی مظلوم نظر آتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودیوں نے برطانیہ ،فرانس کو استعمال کرتے ہوئے باسفورس ڈیکلیریشن کے تحت فلسطین میں اپنی ایک آزاد و خود مختار حکومت قائم کر لی مگر یہ بات فہم سے بالا تر ہے کہ ہٹلر کے مظالم کی سزا فلسطینیوں کو کیوں دی گئی َ؟یہودی ریاست بنانا اگر ضروری تھا تو یہ ان علاقوں میں کیوں نہ بنائی گئی ۔عربوں کی تیل کی آمدنی یہودی بینکاروں کے پاس جمع ہے جس کا انہیں سود بھی ادا نہیں کرنا پڑتا ۔یہودی بینکار یہ پیسہ تیل کی مزید تجارت اور اسلحے کی تیاری پر خرچ کرتے ہیں جو مسلم دنیا میں جنگوں کے پھیلانے کا باعث بنتا ہے ۔یہ آپ کی جوتی اور آپ کے سر کا معاملہ ہے ۔موجودہ امریکی معیشت دنیا کی مقروض ترین معیشت ہے ۔کسی بھی ملک کی کرنسی چھاپنے کا ایک طریقہ کار تھا کہ ایک تناسب سے سونا خزانے میں رکھا جاتا تھا ۔1971ء میں صدر نکسن نے ڈالر چھاپنے کیلئے سونا خزانے میں رکھنے سے انکار کر دیا اور سعودی حکومت سے ایک معاہدہ کیا کہ آئندہ تیل کی خریدو فروخت صرف ڈالر کے ذریعے کی جائیگی جو امریکی بینکوں کی معرفت ہو گا اور انہی بینکوں میں رکھا جائے گا ۔اس طرح ڈالر کی ضمانت سونے کے بجائے مشرق وسطیٰ کا تیل قرار پایا ۔سعودی عرب کا کئی سو ملین سرمایہ امریکی سرکاری خزانے میں ہے جبکہ دیگر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کا سرمایہ کثیر بھی یہاں جمع ہے ۔آج امریکی ڈالر دنیا کی خطرناک ترین اور غیر مستحکم کرنسی ہے جسے مشرق وسطیٰ کی تیل کی تجارت نے مصنوعی سہارا دیا ہوا ہے ۔علامہ اقبال کی مذہبی وسیاسی بصیرت بڑی روشن اور درخشاں ہے ۔آپ پرسعودی معیشت کی سفاکیت اور اسرائیلی تیاریاں و ہتھکنڈے بڑے واضع اور عیاں تھے ۔فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے ۔امریکی صدر وہائٹ ہائوس میں کٹھ پتلیوں کی طرح ہیں ۔ابراہم لنکن اور جان ایف کینیڈی نے حقیقی معنوں میں صدر بننے کی کوشش کی تو انہیں قتل کر دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں امریکہ نے غزہ میں جاری جنگ کو روکنے سے متعلق قرار داد کو مسترد کر دیا ہے ۔ایسا چھ بار ہوا ہے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا ہے ۔غور و فکر کی ضرورت ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو کل تک مشرق وسطیٰ میں امن اور غزہ میں جنگ بندی کے نام پر اہل عرب سے کھربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ اور اسلحہ ڈیلز کر رہے تھے اور قیام امن کی یقین دہانیاں بھی کرا رہے تھے مگر جونہی جنگ بندی کا موقعہ آیا تو امریکہ نے اسے ویٹو کردیا ۔غزہ میں صیہونی جارحیت کی انتہا کے نتیجہ میں مزید61فلسطینی شہدا کا اضافہ ہوا ہے جس میں متعدد بچے نشانہ بنے ۔دراصل اسرائیل فلسطین تنازعہ اس سطح تک پہنچانے میں سب سے زیادہ منفی کردار امریکہ کا ہی ہے جو ایک طرف فلسطین کی آزادی کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کو مسلح کرتا ہے ۔اب یہ مسلم دنیا کا فرض ہے کہ وہ خطرے کو محسوس کریں اور مشترکہ طریقہ کار اپناتے ہوئے مشترکہ سٹینڈ لیں اور اسرائیل کو نکیل ڈالیں تا کہ نہ صرف فلسطینیوں کو ان کا حق آزادی مل سکے بلکہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام بھی ممکن ہو سکے ۔
اسرائیلی بربریت تاریخ کے آئینہ میں
