Site icon Daily Pakistan

اسرائیل گاؤں کا ایک بھیڑیا ہے

اسرائیل فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے یہ اسکولوں، اسپتالوں اور رہائشی علاقوں پر بم برسا رہا ہے۔ جس سے بچے عورتیں نوجوان بوڑھے شہید ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے تمام ادارے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے ساتھی مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں۔یہ مسلم ممالک کو اپس میں لڑاتے ہیں کمزور ہونے پر خود ان ممالک پر بم برساتے ہیں لیکن کیا مجال کہ اسلامی ممالک سبق سیکھیںجبکہ اللہ کا دیا ان مسلم ممالک کے پاس سوائے دوستی اور آپس کے بھائی چارے کے سب کچھ ہے۔ یہ ملکر ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت تمام مسلم ممالک اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب پہلی بار پاکستان اور سعودیہ اکھٹے ہوکر تاریخ ساز معاہدہ کیا ہے ۔ اگر دوسرے مسلم ممالک بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں تو اسرائیل کو نکیل ڈال سکتے ہیں اس وقت پاکستان اور ایران واحد مسلم ممالک ہیں جنھوں نے اپنے اپنے دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے اور فوری جنگ بندی ہو گئی۔دوسری طرف اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یک طرفہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ اس جنگ کی بنیادی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے، اسکی بنیادی وجوہات سیاسی، مذہبی، تاریخی اور عالمی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں ۔ نمبر 1:ان کے درمیان زمین اور سرحدوں کا تنازعہ ہے۔1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطین کو اپنی زمین اور ریاست کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے جبکہ فلسطین کے لوگ ایک آزاد ریاست چاہتے ہیں (مغربی کنارے + غزہ + مشرقی یروشلم)، لیکن اسرائیل اس کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نمبر 2:یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے لیے مقدس شہر ہے۔ فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت چاہتے ہیں جبکہ اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے۔ نمبر 3 : اسرائیل مغربی کنارے پر یہودی بستیاں بنا رہا ہے، جسے عالمی برادری غیر قانونی سمجھتی ہے۔اس سے فلسطینی علاقے مزید سکڑتے جا رہے ہیں اور کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ نمبر4:اسرائیل ایک طاقتور فوجی ریاست ہے، جسے امریکہ بھارت اور مغربی ممالک کی بڑی حمایت حاصل ہے جبکہ فلسطینیوں کے پاس محدود وسائل ہیں، اور وہ زیادہ تر مزاحمتی گروپوں پر انحصار کرتے ہیں۔ نمبر 5 :عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں۔ امریکہ بھارت اور مغربی ممالک اسرائیل کے حامی ہیں۔ عرب دنیا اندرونی اختلافات اور اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے، اس لیے فلسطین کے حق میں عملی اقدامات محدود ہیں۔ نمبر 6:فلسطینی قیادت میں بھی تقسیم ہے:مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی(فتح پارٹی)۔ غزہ میں حماس۔ یہ اختلاف بھی امن عمل کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے۔ نمبر7 : مذہبی اور نظریاتی پہلو۔ یہ تنازعہ صرف زمینی نہیں بلکہ مذہبی شناخت اور عقائد سے بھی جڑا ہوا ہے۔
اس لیے سمجھوتے پر پہنچنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ سمجھا جائے کہ جنگ ختم نہ ہونے کی اصل وجہ یہی ہے ۔پھر بڑی طاقتوں کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ آج دنیا میں کوئی بھی موبائل بنانے والا برانڈ ایسا نہیں ملتا جو مکمل طور پر اسرائیلی ٹیکنالوجی سے آزاد ہو یہی وہ نکتہ ہے جسے نیتن یاہو نے ایک "اسٹریٹیجک کارڈ” کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں سمیت پوری دنیا کو دھمکی دی ہے۔ افسوس تو یہ کہ اس بات کو آپ احباب تک پہنچانے کیلئے بھی مجھے انہیں دجالوں کے بنائے ہوئے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے،کاش مسلمانوں نے جدید ٹیکنالوجی پر بھی ان جیسا کام کیا ہوتا. آ ہم دعاں کے ساتھ کچھ عملی اقدامات اور سوچ بچار بھی کرتے۔ ایک گاں کا واقع یاد ا رہا ہے یہ موجودہ اسرائیل کی صورتحال پر یہ فٹ آتا ہے۔ کہتے ہیں ایک گاں میں بھیڑیا آتا غریبوں کی جھونپڑیوں سے ان کے کسی نہ کسی معصوم بچے کو اٹھا کر لے جاتا۔ اس گاں کے سارے طاقتور ملکر غریبوں کی مالی مدد بھی کرتے، اور دوسروں میں بھی مدد کا جذبہ پیدا کرنے کا بہانہ بنا بنا کر اپنی مدد کی تشہیر دور دور تک کرتے بھی رہتے۔ عبادت گاہوں میں اجتماعی توبہ کا انتظام بھی کروایا کرتے۔جب بھی کسی طاقتور سے پوچھا جاتا کہ بھیڑیا کو مارنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی تو وہ کہتے جناب کوشش تو بہت کرتے ہیں، رات میں گاں کے چاروں طرف پہرہ بھی بٹھاتے ہیں مگر شاید یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ ہمارے گناہ بہت بڑھ گئیے ہیں، دعا کریں کہ مالک کائنات ہم پر رحم فرمائے۔ غریبوں کو سکھایا جاتا کہ سب مل کر اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور دعا کرو کہ بھیڑیا مر جائے یا وہ ہماری بستی سے ہی کہیں دور چلا جائے۔ سب دعائیں کرتے رہے مگر کوئی دعا قبول نہ ہوئی، بھیڑیاکے منہ کو بچوں کے خون کی صورت ایک آسان شکار کرنے کا چسکا لگ چکا تھاپھر ایک دن مالک کائنات کے حکم سے اس کمزور انسان کا بچہ بھیڑیا اٹھا کر لے گیا، جسے مالک کائنات نے دعا کرنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔ اس انسان نے ہاتھ اٹھائے، آسمان کی طرف روتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور کہا، اے وہ ذات کہ جس نے سب کچھ تخلیق کیا اور جسکا کوئی شریک نہیں، تو نے بھیڑیا کو پیدا کیا ہے، اسے درندہ بنایا ہے، اسکا کوئی قصور نہیں وہ تو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئیے شکار کرتا ہے اور جہاں اسے شکار آسانی سے مل جائے وہ اسے کھا لیتا ہے لہذا شکار کرنے کہیں اور کیوں وہ جائے گا۔ اے مالک کائنات اگر تو چاہے گا تو وہ بھیڑیا دوبارہ کبھی یہاں نہیں آئے گا، مگر میں جانتا ہوں کہ تو نے یہ دنیا امتحان کی جگہ بنائی ہے اور تو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تیرے طاقتور بندے تیرے کمزور بندوں کی تکلیف میں کتنا درد محسوس کرتے ہیں۔ اے مالک کائنات میں تجھ سے بھیڑیا کے مرنے کی دعا نہیں کرتا۔ میں تجھ سے صرف اتنا مانگتا ہوں کہ تو نے جس جس کو یہ طاقت اور دولت دے رکھی ہے کہ وہ اس بھیڑیا کو پکڑ کر مار دیں، تو اسی بھیڑیا کے ہاتھوں ویسے ہی ان میں سے کسی کا بچہ بھی شکار کروا دے جیسے تو نے میرا بچہ شکار کروایا ہے۔ اگلی صبح گاں میں ہنگامہ تھا شور تھا کہ گاں کے سب سے طاقتور کے گھر کے صحن سے بھیڑیا اسکا بچہ اٹھا کر لے گیا تھا۔ اس کے سات گاں کے طاقتور، اپنی گاڑیوں، شکاری کتوں اور اسلحہ سے لیس لوگوں کے ساتھ چیتے کی تلاش میں نکل پڑے، سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ اب اس بھیڑیا کی ہمت بہت بڑھ گئی ہے، یہ کمزور غریبوں کو چھوڑ کر اونچی حویلیوں کی دیواریں پھلانگنے لگا ہے۔ درجنوں شکاری کتوں نے کچھ ہی دیر میں بھیڑیا کو ڈھونڈھ نکالا اور اسے مار دیا۔ اسکی لاش کو گاں کے بیچوں بیچ لٹکا کر گولیاں برسائی گئیں۔ کہتے ہیں کہ اس گاں سے دوبارہ پھر کبھی کسی غریب کا بچہ کسی بھیڑیا کا شکار نہیں بنا سب کا ماننا یہ ہے کہ گاں سے بچے تو بڑے گناہگاروں کے بھی اٹھائے گئیے مگر آخر کار دعا ایک نیک دل ممتا کی ہی قبول ہوئی اور سب کو اس عذاب سے نجات مل گئی۔اس وقت اسرائیل بھی ایک بھیڑیا ہے۔ اللہ کرے گا فلسطین کے بچوں کی ان کی ماں بہنوں کی دعا کو قبول کرے گا اور اسرائیل کو بھی یہ سب مسلم ممالک مل کر اسرائیل کے ساتھ گاں کے بھیڑیا جیسا سلوک کریں گے اور اسے عبرت کا نشان بنائیں گے تو پھر ہی فلسطین اور خطے میں امن ہو گا۔

Exit mobile version