Site icon Daily Pakistan

افغان طالبان ہی فتنہ خوارج کے حقیقی سرپرست

یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی برادری کو اس حقیقت سے آگاہ کرتا آ رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین مختلف دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک محفوظ جنت بن چکی ہے، جس میں سب سے خطرناک کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہے جسے پاکستان میں فتنہ خوارج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستانی ریاست نے متعدد بار دنیا کو شواہد فراہم کیے، تصاویر، ویڈیوز، انٹیلی جنس رپورٹس اور عسکری دستاویزات پیش کیں، مگر افغان طالبان کی عبوری حکومت نے ہمیشہ الزامات کو مسترد کیا، کبھی بیانیہ بدلا، کبھی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی اور کبھی خاموشی اختیار کرلی۔ تاہم اب پہلی بار اقوام متحدہ نے وہی بات تسلیم کرلی ہے جو پاکستان برسوں سے دہرا رہا تھا۔ دنیا کے سامنے یہ حقیقت بے نقاب ہو گئی کہ فتنہ? خوارج کا اصل سرپرست کوئی اور نہیں بلکہ کابل کی عبوری حکومت ہی ہے جو اپنی زمین کو پاکستان اور خطے کے خلاف استعمال ہونے دیتی ہے۔سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تازہ رپورٹ میں القاعدہ اور داعش پابندی کمیٹی کی سربراہ سینڈرا جینسن لینڈی نے واضح کیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے6 ہزار سے زائد جنگجو منظم انداز میں فعال ہیں اور انہیں طالبان حکام کی جانب سے پناہ گاہیں، نقل و حرکت کی آزادی اور لاجسٹک مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی شدت اور تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، خصوصاً ان حملوں میں جہاں بارودی سرنگیں، جدید امریکی رائفلیں اور بکتر شکن گولہ بارود استعمال ہوا۔ اسی تناظر میں چین نے بھی اقوام متحدہ میں بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کو ممنوعہ تنظیمیں قرار دینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ علاقائی عدم استحکام کا منبع افغانستان کی غیر ذمہ دارانہ پالیسی ہے۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کے نمائندے عثمان جدون نے بتایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف 80 ہزار جانوں کی قربانی دی، ہزاروں فوجی شہید ہوئے اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد گروہ پاکستان کے اندر ریاستی تنصیبات، سکیورٹی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر منظم حملے کر رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ وہ معلومات ہیں جنہیں پاکستان برسوں سے دہرا رہا تھا، مگر افغانستان نے نہ صرف ان الزامات کو جھٹلایا بلکہ بعض اوقات الٹا پاکستان پر الزام تراشی کر کے دنیا کو گمراہ کیا۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کا ساتھ دیا۔ روسی حملے کے دوران پاکستان نے اپنے دروازے کھول کر چالیس لاکھ سے زائد مہاجرین کو پناہ دی، ان کی نسلوں کو تعلیم دی، صحت کی سہولیات فراہم کیں اور ان کی کفالت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ سفارتی ماہرین کے بقول پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے ہر عالمی فورم پر افغان عوام کا مقدمہ لڑا۔ اسی تناظر میں یہ تلخ حقیقت مزید نمایاں ہو جاتی ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کے انہی احسانات کو فراموش کرتے ہوئے فتنہ? خوارج کو پالا پوسا، انہیں مالی مدد دی اور پاکستانی سرزمین میں حملوں کے لیے استعمال ہونے دیا۔یورو ایشین ٹائمز کی ایک مفصل رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے پاس وہی اسلحہ ہے جو امریکی انخلا کے وقت بڑی تعداد میں افغانستان میں چھوڑا گیا تھا۔ یہ امریکی اسلحہ طالبان نے ”مالِ غنیمت” قرار دے کر نہ صرف اپنی پریڈ میں دکھایا بلکہ اس کا ایک بڑا حصہ ٹی ٹی پی، ازبک جنگجوؤں، القاعدہ عناصر اور داعش کے بعض گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے امریکی اسلحے کی نمائش پر سخت غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اسلحہ کسی بھی صورت دہشت گردوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس سامنے آئی اور افغانستان عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے اسلحے کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا۔اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ سال افغانستان سے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جن میں 400 سے زیادہ شہری اور درجنوں فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ کنڑ، ننگرہار، پکتیا اور خوست میں فتنہ خوارج کے مستقل تربیتی مراکز قائم ہیں اور طالبان حکام نہ صرف انہیں برداشت کر رہے ہیں بلکہ بعض رپورٹس کے مطابق ان کی تنظیم کو ماہانہ 43 ہزار ڈالرز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ بحیثیتِ ریاست بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ امر خصوصی تشویش کا حامل ہے کہ ان گروہوں کا اصل ایجنڈا پہلے پاکستان میں افراتفری پیدا کرنا، پھر وسطی ایشیا کی ریاستوں اور خلیجی ممالک میں عدم استحکام پھیلانا اور بالآخر عالمی سطح پر نئی دہشت گرد لہر کو جنم دینا ہے۔افغانستان کا داخلی منظرنامہ بھی مسلسل ابتری کا شکار ہے۔ طالبان قیادت شاہانہ طرزِ زندگی اختیار کر چکی ہے، جبکہ افغان نوجوانوں کو ”جہاد” کے نام پر پاکستان کے خلاف جھونکا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق افغان دیہات میں درجنوں نوجوانوں کی لاشیں واپس پہنچ رہی ہیں اور خاندان اپنے بچوں کا ماتم کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں افغان عوام میں طالبان حکومت کیخلاف بے چینی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ کابل حکومت نے ان کے بچوں کو ایک ایسے فتنہ میں دھکیل دیا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔پاکستان نے اب عالمی سطح پر سفارتی مہم تیز کر دی ہے۔ اسلام آباد کا دوٹوک مؤقف ہے کہ ریاستِ پاکستان آئندہ حملوں کا جواب صرف دفاعی نہیں بلکہ پیشگی حکمت عملی کے تحت دے گی۔ دہشت گرد جہاں سے آئیں گے، وہیں ان کا تعاقب کر کے انہیں بے اثر کیا جائے گا۔ پاکستان واضح کر چکا ہے کہ اب کوئی دہشت گرد گروہ، کوئی پناہ گاہ اور کوئی سرحدی علاقہ اس کے ردِعمل سے محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان کا پیغام بالکل صاف ہے کہ اپنی سرزمین پر ہونے والے ہر حملے کا جواب دیا جائے گا، چاہے اس کے پیچھے فتنہ خوارج ہو یا ان کے سرپرست افغانستان میں بیٹھے حکام۔

Exit mobile version