طالبان کے وزیر صنعت و تجارت نور الدین عزیز پانچ روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں ۔ دو ماہ کے قلیل عرصہ میں طالبان حکومت کے یہ دوسرے عہدیدار ہیں جو انڈیا کا دورہ کر رہے ہیں۔بظاہر اس کا مقصد افغان کاروبار کیلئے درآمدی برآمدی میکانزم کو منظم کرنا ہے ۔ درحقیقت یہ دورہ ملا متقی کے نئی دہلی کے دورے کی پیروی ہے جسے پاکستانی پوسٹوں پر افغان فورسز اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے مشترکہ سرحدی حملوں سے منسلک کیا گیا ہے۔چند روز قبل طالبان کے سربراہ عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ چند مہینوں میں پاکستان کیساتھ کاروبار ختم کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے تجارتی راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
اگردرست تناظر میں دیکھا جائے تو چند اہم پوائنٹ بہت واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔ طالبان حکومت پاکستان کی طرف سے سرحد کی بندش کا احساس زیاں نمایاں ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ تجارتی دباؤ کے باوجود طالبان تجارت پر دہشت گردی کو ترجیح دے رہے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ افغان عبوری سیٹ اپ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان عوام کی معاشی مشکلات سے زیادہ دے رہے ہیں۔اسے شاید انہوں ریاستی پالیسی کا حصہ بنا لیا ہے۔ اسی طرح بھارت کیساتھ جس نے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی افغانستان سے فرار میں بہتری سمجھی تھی،اس سے نئے سرے سے ہم آہنگی پاکستان مخالف ہتھکنڈوں، دہشت گردی کی سرپرستی کی مشترکہ سازشوں، جیو سٹریٹجک بلفنگ اور روایتی موقف سے واضح طور پر پیچھے ہٹنے کے گرد گھومتی ہے۔حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ اسلام کا نقاب طالبان کے چہرے سے مکمل طور پرگر چکا ہے۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ تک طالبان ہندوستان کو ایک ہندوکافر ریاست کے طور پر پیش کرتے رہے جو کابل میں اسلام مخالف قوتوں کی پشت پناہی کر رہی تھی مگر اب وہی نام نہاد امارات اپنے وزیر خارجہ اور وزیر تجارت کو نئی دہلی کے یاترا پہ یاترا کرا رہی ہے اور اس ریاست کو منڈیوں، ڈیموں اور سرمایہ کاری کیلئے للچائی ہو ئی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ بامیان بدھا کے مجسمہ شکنی سے نئی دہلی تک کا سفر بہت پرکشش بن گیاہے۔
کہاں گئی وہ غیرتِ ایمانی جس پہ طالبان ہمیشہ نازاں رہے ہیں۔ طالبان نے بامیان کے بدھوں کو غیر اسلامی بتوں اوربدھ ہندو تہذیب کے خلاف جنگ کے طور پر اڑانے کا جواز پیش کیا تھا۔ آج کابل کی غیر منتخب حکومت اسی ہندوستان کیساتھ روٹی توڑ توڑ کر کھانے میں مصروف ہے، جو خود کو اسی بدھ اور ہندو ورثے کا محافظ اور فروغ دینے والا ہے۔ماضی میں، طالبان نے کابل جمہوریہ کوبھارت کی کٹھ پتلی کے طور پر نظرانداز کیا تھا اور ہندوستانی قونصل خانوں کو افغانستان اور پاکستان کے خلاف” را” کے دہشت گردی کے مرکز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اب، وہی امارت ہندوستانی گندم، تعمیر نو کیلئے ہندوستانی پیسے، ہندوستانی بندرگاہوں اور تجارتی راہداریوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہی ہے، اس سابق دشمن سے افغان معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ترلے کر رہی ہے۔ طالبان مسلم بھائی چارے، اسلامی یکجہتی اور پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات کے بارے میں مسلسل بات کرتے ہیں، لیکن ان کے حالیہ اقدامات نے حکومت کے اندرونی پہلو کو بے نقاب کر دیا جو تاریک اور بدصورت ہے۔ ایک بار جب پاکستان کے ساتھ تعلقات کالعدم دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے، تو وہ اپنے پڑوسی کیساتھ معاملات طے کرنے کے بجائے ایک غیر مسلم ریاست کے ساتھ دروازے کھولنے کے لیے دوڑ پڑے ہیں۔ تلخ سچائی ناقابل تردید المیہ ہے کہ طالبان ایک مسلم ریاست کے بنیادی سیکورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے پر کیوں تیار بیٹھے ہیں، جبکہ تجارتی اور مالیاتی مسائل کی آڑ میں ہندو اکثریتی ریاست کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ طالبان روایتی طور پر مغربی معاشی غلامی، سود پر مبنی نظاموں اور مرتد اداروں کو شیطان بنا کر عوامی حمایت حاصل کرتے تھے۔سابقہ اسلام نواز پاپولسٹ نعروں کے برعکس،اب وہ ہندوستانی لابی کے نرغے میںہیں۔
طالبان نے شریعت کی غلط منطق کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق پر کو ہمیشہ ہی پامال کیا۔لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے کام، میڈیا کی آزادی پر قدغین لگا رکھی ہیں اوریہ سب کچھ خالص شریعت کے نام پر ہے۔ اس کے باوجود خارجہ پالیسی پر وہ انتہائی لچک دکھاتے ہیں، جو بھی نقد رقم، راہداری اور سیاسی کوور کی پیشکش کرتا ہے،اس کے ساتھ تیزی سے جڑ جاتے ہیں، بشمول وہی ریاستیں جنہیں وہ اسلام مخالف قرار دیتے تھے۔
افغان وزیر تجارت کا دورہ بھارت،تجارت یاسازش

