علامہ اقبالؒؒ کا شعری نظریہ فکری ماورائیت کے پیام کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے ہاں شعر کی مقصدیت کو اولیت حاصل تھی۔اقبالؒ شاعر ی برائے زندگی کے قائل تھے نہ شاعری برائے شاعری کے۔ انہوں نے اجتہادی شاعری کی۔ حرکت اور جدوجہد ان کی شاعری کا خاصا تھا۔ ثبات وسکون ان کے ہاں مفقود نظر آتا ہے، کیونکہ وہ خود ایک متحرک شاعر تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ تلاش اور جستجو کے بھی خواہاں تھے۔علامہ ؒکے ہر شعرمیں زندگی کاپیغام ہے۔علامہ اقبالؒ ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کی زندگی تخلیقی کاموں سے بھری ہوئی ہے اور ان کے کام میں تنوع پایا جاتا ہے۔آپ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے تمام انسانیت کے لیے عظیم پیغام دیا ہے آپ شاعری میں بھی جذبات کو عقل پر مسلط نہیں ہونے دیتے۔اقبالؒ ایک ایسا مفکر ہے جس نے اسلامی تہذیب کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی بات کی ہے اور اسلامی تہذیب کی بنیاد ہی حسن خلق پر ہے۔اقبالؒ ایسے فلسفی ہیں جنہوں نے مابعدالطبیعات کا مطالعہ کیا اور فلسفہ کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی۔ آپ اسلام کو ایک عقیدہ اور ایک نظام کے طور پر قبول کرتے ہیں۔اقبالؒ نے معاشرے میں موجود بے حیائی،انحطاط اور انحراف کا مقابلہ کیا اور مسلمان قوم کے سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اقبالؒ سیاست میں آئے اور اس میں شب و روز ایک کیا۔مشکل وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوئے ، ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی کےلئے ان کی جنگ لڑی۔قلم کاروان اسلام آباد عالمی مجلس بیداری فکر اقبالؒؒکی فکری نشست میں”بعدمدت کے تیرے رندوں پھرآیاہے ہوش ” کے عنوان پر ڈاکٹرامان اللہ خان نے بتایا کہ 1905سے 1908 کے دورانیہ نے اقبالؒؒ کو وہ کچھ بنایاجسے ہم اقبالؒؒ کے نام سے جانتے ہیں ۔ ان کی شاعری کی بنیاد قرآن و سنت ہے جس کاانہوں نے متعددمواقع پر خود اعتراف بھی کیاہے۔ علامہؒ نے قرآنی آیات کو اشعارمیں ڈھال کر پیش کیا۔حکیم الامت نے اپنی بصیرت سے امت کی بیداری کاسامان فراہم کیااور دورغلامی کے دوران اسلامی فکروعمل کوتازہ کیا۔علامہؒ کے تصورغلامی کاذکرکرتے ہوئے فاضل مقررنے کہا کہ علامہؒ کسی غلامی زدہ فردیاطبقے کو مسلمانوں کی قیادت کااہل نہیں سمجھتے ۔علامہؒ کے نزدیک غلامی کے رویے حسن زیبائی سے محرومی کاشکارہوتے ہیں۔ علامہؒ نے یہ سب فیض علامہ جلال الدین رومیؒ سے حاصل کیاجس کاذکرانہوں نے اپنے منظوم کلام اور خطبات میں بھی کیاہے۔ علامہ جلال الدین رومیؒ جابجا اقبالؒؒ کی تربیت کرتے نظرآتے ہیں۔تصورخودی کاذکرکرتے ہوئے فاضل مقررنے تین درجات ؛عرفان ذات،عرفان آدم اور معرفت رب گنوائے ۔ اقبالؒؒ اپنی خدادادبصیرت کی بنیادپر بتاتے ہیں کہ بہت جلد غلبہ اسلام ہوگا۔ یورپ آج جہاں کھڑاہے اقبالؒؒ آج سے سوسال پہلے وہاں سے بھی آگے نکل چکے تھے۔1912ء میں "شکوہ "لکھنے کے بعد علامہ ؒکی شہرت گہناگئی تھی لیکن اس نظم”شمع اورشاعر”نے گزشتہ داغ دھودیے اورمولاناظفرعلی خان نے اس نظم کی دس ہزارنقول تقسیم کرائیں اور قیمت پچاس پیسے رکھی جب کہ لوگوں نے بہت خطیررقم بھی اداکی۔ مذکورہ نظم اگرچہ "شکوہ”کے پس منظر میں لکھی گئی تھی لیکن علامہؒ نے اس کے بعد”جواب شکوہ” بھی لکھی۔اس بات سے مفر نہیں کہ اقبالؒ نے افلاطون ،شبلی، مولانا حالی اور غالب سے کسب فیض حاصل کیا ،لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے اپنے نظریہ ادب و شعر کی بنیاد قرآن وحدیث پر رکھی ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک شاعر ایسا ہونا چاہئے کہ جس کی شاعری سے اور جس کے افکاروخیالات سے قوموں کی زندگی میں نئی روح اور نئی جان پیدا ہو۔ شاعر کی شاعری ایسی ہو کہ ہر مردہ جسم ،زندہ جسم کی مانند ہوجائے اور سکون کے بجائے تحرک پیدا ہوجائے۔ علامہؒ نے ایک موقع پر فرمایاتھا:” شاعر اپنے تخیل سے قوموں کی زندگی میں نئی روح پھونکتاہے۔قومیں شعراءکی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہلِ سیاست کی پامردی سے نشو ونما پاکر مرجاتی ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعراءاور انشاءپرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔“اقبالؒ کے مطابق شعر ایسا ہونا چاہئے جس سے ضمیر میں احساس پیدا ہو ، افکاروخیالات میں پاکیزگی پیدا ہو، سوچنے سمجھنے کی قوت بڑھ جائے ، قوتِ فکروعمل میں اضافہ ہو اور بے یقینی اور غلامی کا خاتمہ ہو ۔ اقبالؒ نظریہ شعر کے حوالے سے اپنے ان دو اشعار میں کہتے ہیں:
میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن
یہ نکتہ ہے تاریخِ امم جس کی ہے تفصیل
وہ شعر کہ پیغامِ حیاتِ ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگِ سرافیل
اقبالؒ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ کہا ہے کہ قرآن کریم وہ آئین ہے جو حضور نے اس ا±مت مسلمہ کو دیا
آں کتابِ زندہ ، قرآنِ حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
وہ زندہ کتاب قرآنِ کریم ہے۔ اس کی حکمت لازوال اور ہمیشہ سے ہے۔ قرآنِ کریم کی یہ شان ہے کہ جب ایک دور گزرتا ہے تو دوسرے دور کےلئے نئی آب و تاب کے ساتھ اپنی تعلیمات کو پیش کر دیتا ہے۔ اس کی تعلیمات کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ یہ آئین قرآن مجیدزمان و مکان کی حدود میں محصور نہیں ۔ ”اسرار و ر±موز“ میں اس پر باب باندھے گئے ہیں کہ اس ا±مت کا نہ کوئی انتہاے زمانی ہے اور نہ کوئی انتہاے مکانی ہے۔
اقبالؒکے ہر شعرمیں زندگی کاپیغام ہے

